Salgirah Mubarak Fatima Beti
سالگرہ مبارک فاطمہ بیٹی
وہ شام۔ بارہ برس پہلے نومبر کی انیس کی وہ گھنیری سرد شام۔ میرے سامنے وہ اپنی مشفق مسکراہٹ کے ساتھ کھڑی تھی۔ آنکھ کھولی تو ایک آئینہ دیکھا تھا۔ تب سے لے کر آخری دیدار تلک زندگی اسی آئینے میں خود کو دیکھ کر اپنی نوک پلک سنوارتی رہی۔ اسکے بعد بکھر سی گئی۔ اسی مقدس مسکراہٹ کا عکس بنتا تھا سنجیدگی کے پارے سے بنے اس آئینے پر۔
دیوی کی مسکراہٹ قائم رہے ہمارے قدامت پسند سے گھرانے میں یہ مسکراہٹ جدت کی پہلی علامت تھی۔ گھر کی سکرین پر اس مسکراہٹ کے ریموٹ کنٹرول سے زندگی کے چینلز بدلتے تھے۔ یہ میری بڑی بہن تھی میرے گھر کی دیوی۔ اس مہان دیوی کی اسی مسکراہٹ کی قدردانی اسی لیے ازل سے تھی کہ یہ میرے خاموش طبع سنجیدہ مزاج بابا مرحوم کے چہرے پر منتقل ہوتی تھی۔ یہ منظر نایاب ہوا کرتے تھے۔
اپنے کان ہم ماں باپ طب کی سرگوشیوں سے بچا کے اس لمحے تلک پہنچے تھے اس لیے خبر نہ تھی میری جانب بڑھتے ہوئے اس دیوی نے اپنی آغوش میں کسے بھر رکھا تھا۔ اس نے بارگاہِ خداوندی میں پھیلے میرے بازؤں میں صبحِ ازل کے نور کی پوشاک میں لپٹی خدا کی رحمت کو رکھتے ہوئے کہا "مبارک ہو اللہ نے تمہیں فاطمہ عطا کی"۔
فاطمہ۔ ایک لمحے کو چشمِ تصور پر وہ منظر ابھرا۔ خدا نے جن کو رحمت العالمین بنا کر بھیجا کیا لمحہ ہوگا کہ جب انکی پھیلی ہوئی مبارک بانہوں میں کسی نے عالی مقام فاطمۃ الزہرہ کو لا کے رکھا ہوگا۔
"گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں۔ "
میں کہاں وہ کہاں، مگر طے شدہ امر ہے کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے والے عہد میں بیٹیوں کی تعظیم کا خراج آج دیوی کی مسکراہٹ سے فاطمہ کی مبارک تک سبیل کی صورت جاری و ساری ہے۔
"فاطمہ" یہ نام صبر کے پہاڑ میرے بڑے بھائی، فاطمہ کے بابا اور جنت کی منزل کی جلدی میں ہم سے زندگی کے رستے میں بچھڑ جانے والی بھابھی جان نے رکھا تھا جنہیں بیٹی کی تمنا تھی۔ کاش وہ ہوتیں۔
میری خزاں رسیدہ آغوش میں ایک نورانی تتلی کیا رکھ دی گئی تصور کے چمن میں جیسے محبت کی بہار آ گئی ہو۔ یوں لگا جیسے کسی غیر مرئی اندرونی زخم پر قدرت نے وہ پھاہا رکھ دیا کہ من میں ازل سے بسے اک انجانے درد کو قرار آ گیا۔ جیسے بے سمت مسافت میں اپنے وجود کو ہانکتے، بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل کی منڈیر پر جلتے چراغ کی لو دکھنے لگے۔ جیسے تلخ دھوپوں میں پیاسی زمین پر پڑنے والی دراڑوں کو بارانِ رحمت بھر کر سیر کر ڈالے۔
جیسے حبس سے سینے میں مضطرب سانسیں بادِ نسیم کے جھونکوں پر زندگانی کا مدہم رقص کرنے لگیں۔ وہ کیا لمحہ تھا کیا عجیب سحر تھا اس میں۔ میری ہستی میں ایک انقلاب برپا ہونے لگا۔ یہ گود خالی نہیں تھی چار سال سے ایک بیٹے کی پناہ گاہ تھی۔ اس سے بھی پانچ سال پہلے سے دو بھانجوں کی مگر یہ کیفیات کچھ سوا تھیں۔ وہ دن اور آج کا دن۔ وہ خوش ہو تو گھر کے کون و مکاں مسرور لگتے ہیں وہ کسی وجہ سے اداس ہو تو وقت کے کاندھے بوجھل ہو جاتے ہیں۔ گھر کے آنگن میں وہ اڑتی ہے تو حیات کا خارزار ایک نخلستان بن جاتا ہے۔
اسکی چیزیں، اسکے کھلونے، اسکے میک اپ کے سامان، اسکی شاپنگ، اسکے کپڑے، اسکے جوتے، اسکی کتابیں، اسکا بستہ۔ الغرض زندگی اس چاند کا ہالہ ہے۔ جب وہ کسی بھی معاملے میں اپنے بڑے بھائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میری اپنی پسند ہے آپ کی اپنی، میرا اپنا حق ہے آپ کا اپنا، میری اپنی مرضی ہے آپکی اپنی، تو ایک طمانیت سی دل میں ابھرتی ہے کہ زندگی اس ضمن میں ٹھیک ڈگر پر رواں ہے۔
اسکی سالگرہ پر بیرونِ ملک سے آنے والے میرے جگری یار میرے بھائی وقار، بھابھی طیبہ کے خلوص کے پالنہار دل آباد رہیں اور فاطمہ کی روحانی طور پر جڑواں مانو نے ایک بار پھر یاد کروا دیا کہ بیٹیوں کو سانجھی دیویاں بنانے اور انکی مسکراہٹوں اپنا زادِ راہ بنانے کا سفر نسل در نسل جاری ہے۔ نہیں معلوم پڑھنے والوں کو پچھلا مضمون یاد ہے کہ نہیں اپنے تو دل پر نقش ہے۔
بیٹیوں کو رحیم خدا کے اپنی رحمت بنانے کا شکر، جنابِ رحمت للعالمینؐ کے اس رحمت کی تعظیم پر درود و سلام، میرے بابا مرحوم کی دیوی کی مسکراہٹ کو ہماری وراثت بنانے پر الگ سے دعائے مغفرت اور فاطمہ بیٹی آپ کا شکریہ کہ آپ آج کے دن تشریف لائیں۔ سالگرہ مبارک فاطمہ۔