Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. General Bajwa, Doctrine Se Aeen Tak

General Bajwa, Doctrine Se Aeen Tak

جنرل باجوہ، ڈاکٹرائن سے آئین تک

یہ 2016 کی بات ہے جب جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے دسویں سپاہ سالار بنے۔ (75 سالہ ملکی تاریخ میں صرف دس چیفس۔ ششششششش یہ راز کی بات ہے) اس وقت یہ پڑھا تھا کہ ان صاحب کی مہارت دہشتگردی کے خلاف جنگ ہے اور یہ کہ وہ ان میں سے ایک ہیں جنہوں نے پاکستان کی ریاستی پالیسی (ہونا تو عسکری پالیسی چاہیے لیکن بحرحال پاکستان کی زمینی حقیقت یہی ہے) کو مردِ مومن مردِ حق ضیاءالحق سے اپنی قوم کو مکے دکھانے والے مشرف تک کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے اثرات سے نکال کر یکسوئی کے ساتھ ایک نئی ترقی پسند، جمہوری اور معتدل راہ پر ڈالنے کی داغ بیل ڈالی۔ اسکے علاوہ انکے بارے میں یہ مشہور کیا گیا کہ وہ ایک جمہوریت پسند جرنیل ہیں۔

اس ساری کتھا کو "باجوہ ڈاکٹرائن" کے نام سے مارکیٹ میں مشہوری دلوائی گئی۔ اس وقت انکا گردش کرتا ہوا تعارف یہی تھا کہ انہوں نے آرمی ٹریننگ اینڈ ایوولیوشن نامی ذیلی شاخ میں انسپیکٹر جنرل کی حیثیت سے اس مقصد کے لیے خصوصی لٹریچر بھی مرتب کیا اور یہ کہ وہ شمالی علاقہ جات میں ڈویژن کور کو کمانڈ بھی کر چکے ہیں۔

9/11 کے بعد طالبعلم تبدیل شدہ دنیا کا ایک عینی شاہد ہے۔ 1999 سے 2010 تک مشرف کا مارشل لاء اور اسکے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل راحیل شریف کا دور پاکستان میں ہر دن گویا ایک نئی تاریخ رقم کر کے گیا۔ ویسے تو پاکستان اپنے بننے سے آج تک ہے ہی ہنگامہ خیزیوں کی آماجگاہ لیکن اس عہد کی خاص اور دردناک ترین بات پاکستان کی تاریخ کا یہاں بستے انسانوں کی لاشوں کے قلم اور لہو کی روشنائی سے لکھا جانا ہے۔

تو میرے جیسے ازل کے خوش فہموں کو باجوہ صاحب سے یہ امید تھی کہ وہ، وہ کچھ واقعی کر دکھائیں گے جو انہوں نے کل اپنے الوداعی خطاب میں کہا لیکن پاکستان کے معروضی حالات کے مطابق Worlds " speaks far louder than actions "۔ باجوہ صاحب نے کہا کہ فوج کا سیاست میں کردار غیر آئینی ہے جسکی وجہ سے اسے بھارتی فوج کے برعکس تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ بات بذاتِ خود مضحکہ خیز ہے کہ باجوہ صاحب 6 سال آرمی چیف رہے اور پچھلے سال فروری میں انہیں پتا چلا کہ فوج پر اسکے سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے تنقید ہوتی ہے اس لیے وہ آخری سال سیاست نہیں کریں گے۔

بہرحال باجوہ صاحب کے آرمی چیف بننے کے تھوڑے ہی عرصے بعد نواز شریف صاحب نے ان سے پوچھنا شروع کر دیا کہ مجھے کیوں نکالا؟ یعنی مسلم لیگ ن کے بقول میاں نواز شریف کو پانامہ اسکینڈل کے ہنگام سپریم کورٹ کے ذریعے چلتا کرنے والے باجوہ صاحب تھے۔ مسلم لیگ ن نے "ووٹ کو عزت دو" کا بیانیہ تشکیل دیا جسکا مخاطب عسکری قیادت ہی تھی۔ اس بیانیے کے دوران ریلیوں اور جلسوں میں مسلم لیگ ن نے کھل کر اسکا اظہار کیا۔

پھر 2018 کا الیکشن ہوا تو ایک بار پھر اپوزیشن کی جانب سے آر ٹی ایس کے بیٹھنے کو باجوہ ڈاکٹرائن کا حصہ قرار دیتے ہوئے بٹھائے جانے کا نام دے کر عمران خان صاحب کو باجوہ صاحب کا سلیکٹڈ وزیراعظم قرار دیا گیا۔ عمران خان صاحب کی حکومت میں باجوہ صاحب مکمل طور پر ایک پسِ منظر میں بیٹھے فیلڈ مارشل کے روپ میں نظر آئے۔ جسکا اثر زائل کرنے کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے عمران خان صاحب کی شخصیاتی کرشمہ سازی کا کیمرے پر بھرپور استعمال کیا۔

اندرون و بیرونِ ملک اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور طاقت عمران خان صاحب کے ساتھ کار فرما رہی۔ اپوزیشن رہنماؤں کا جیلوں میں جانا ہو، میڈیا پر یلغار ہو، بلوچستان کی حکومت ہو، سینیٹ الیکشن ہو یا کوئی بھی بڑا اقدام باجوہ صاحب کی آمرانہ طاقت ہر جا کارفرما رہی اور پی ٹی آئی کی نا عاقبت اندیش سیاست اس کو وقتی طور پر اپنے حق میں جان کر بغلیں بجاتی رہی۔

ایک ہی مثال کافی ہے کہ پاکستان میں ہر روز اللہ کو جان دینے والے واحد وزیر جناب شہریار آفریدی صاحب نے رانا ثناءاللہ صاحب پر ہیروئین کے کیس میں کلمے کی قسم کھا کر کہا ویڈیو موجود ہے اور بعد میں کہا میں نے فوٹیج کہا تھا۔ یاد رہے کہ ان موصوف نے باجوہ صاحب کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ "آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔ "

اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ محترمہ مریم بی بی کا ٹویٹر خاموش ہوگیا اور کچھ عرصے بعد میاں صاحب عمران خان صاحب کی حکومت سے خود عمران خان صاحب کے بقول جعلی رپورٹیں بنوا کر باہر چلے گئے اور پی ٹی آئی گورنمنٹ کے سب سے "اہم" وزیر شہزاد اکبر سے جب پوچھا گیا کہ میاں صاحب کیسے باہر گئے اور مریم بی بی کو ضمانت کیسے ملی تو انکا جواب تھا "محکمہ زراعت سے پوچھیں" وہ نہ بھی کہتے تو پتا سب کو تھا یہ اور بات کہ محکمہ زراعت سے پوچھتا کون؟

پی ٹی آئی کے پسندیدہ اینکر عمران خان نے یہ خبر پہلے ہی بریک کر دی تھی کہ میاں صاحب اور مریم بی بی دونوں باہر چلے جائیں گے۔ لیکن میاں صاحب کو بھیج کر مریم بی بی کے جانے میں سیاسی روڑے اٹکائے گئے۔ محترمہ کا بھی چلے جانا خان صاحب کے احتساب بیانیے کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہو سکتا تھا۔

پھر وہ وقت آیا جب نواز شریف صاحب نے گوجرانولہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا نام لے کر للکارا تو اگلے ہی دن خان صاحب نے کنونشن سنٹر میں مہنگائی کم کرنے کے لیے بلائی گئی ٹائیگر فورس کے سامنے جنرل باجوہ کا نام لینے پر منہ پر ہاتھ پھیر کر نواز شریف کو واپس لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہ وہ باہر گئے کیسے جیل سے انکا اے سی بھی اتارنے کی دھمکی دے ڈالی۔

ہر اہم سیاسی موڑ کی طرح اس پر بھی بجائے خان صاحب غورو فکر کرتے اور بہتر سیاسی حکمتِ عملی بناتے کہ میاں صاحب باہر گئے کیسے، خان صاحب نے باجوہ صاحب کا ڈی جی آئی ایس پی آر کا عہدہ سنبھالنا بہتر سمجھا۔ اور پھر مشہورِ زمانہ آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی کے نوٹیفیکیشن کا قضیہ کھڑا ہوا جو کہ کافی مدت سے اس سیاسی بساط کے تابوت میں باجوہ ڈاکٹرائن کا آخری کیل ثابت ہوا۔

اور ہمیشہ کی طرح خان صاحب نے دیر سے شہزاد اکبر کو ہٹانے جیسے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے لیکن اب پی ڈی ایم کی چڑیاں عدم اعتماد کی تحریک چونچ میں پکڑ کر حکومتی کھیت چُگنے کے لیے تیار تھیں۔ فوج کی جانب سے "نیوٹرل" ہونے کے اعلان کو ایم کیو ایم اور باپ پارٹی نے سب سے پہلے سمجھا اور خان صاحب کی حکومت چلی گئی۔ یوں باجوہ ڈاکٹرائن اپنے انجام کو پہنچی۔ یعنی یوں تو دائروں کا سفر 75 سال سے جاری ہے لیکن باجوہ صاحب کے 6 سالوں میں اسکا جو ظہور ہوا اللہ اللہ۔

اسکرپٹ میں نام ایک دوسرے کی جگہ پر ناقابلِ یقین انداز میں تبدیل ہوئے۔ نواز شریف صاحب کی جگہ پر خان صاحب آ گئے۔ رانا ثنااللہ، خواجہ سعد رفیق، شاہد خاقان عباسی صاحبان کی جگہ پر شہباز گل، اعظم سواتی صاحبان آ گئے۔ حامد میر، ابصار عالم، مطیع اللہ جان صاحبان کی جگہ پر عمران خان، صابر شاکر، ایاز امیر صاحبان آ گئے۔

اور پی ٹی آئی کے وہ دوست جو عمران حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات پر تنقید کو ففتھ جنریشن وار فئیر کی خلاف ورزی قرار دیا کرتے تھے آج وہاں کھڑے ہیں جہاں کل نون لیگ کے لوگ کھڑے تھے اور نون لیگ کے لوگ ظاہر ہے انکی چھوڑی ہوئی جگہ پر۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔ سب چھوڑیے باجوہ ڈاکٹرائن کو سمجھنے کے لیے صرف کیپٹن صفدر صاحب کے بیانات کو لے لیجیے کہ جنہیں آج اچانک پتا چلا کہ جنرل باجوہ صاحب انکے استادِ گرامی ہیں۔

جنرل باجوہ کا آخری خطاب بھی انکے عہدِ بادشاہت کی طرح شاہانہ تھا۔ جس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج پر تنقید سیاست میں مداخلت کے باعث ہوتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 71 میں سقوطِ ڈھاکہ فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی۔ اس پر فوج کو 65، 71 اور کارگل تک کی جنگ ہارنے کا طعنہ فلور آف دی ہاؤس دینے والے خواجہ آصف صاحب نے حامد میر صاحب کے کیپٹل ٹاک میں باجوہ ڈاکٹرائن کو حتمی شکل دیتے ہوئے کہا "جنرل صاحب بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں"۔

باجوہ صاحب نے مزید کہا کہ بھارتی فوج دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود تنقید کا نشانہ نہیں بنتی مگر پاکستانی فوج اکثر وبیشتر ہدفِ تنقید بنتی ہے اور جسکی وجہ اوپر بیان ہو چکی۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ باجوہ صاحب نے سرحد پار ہی کی فوج کا سہی انسانی حقوق کی پامالی کا ذکر تو کیا وگرنہ انکے دورِ حکومت میں بلوچستان کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سمیت منظور پشتین صاحب جیسے لوگ انسانی حقوق کی دہائی دیتے رہے مگر اس ضمن میں کبھی کوئی بیان بھی سامنے نہ آیا۔

بہرحال جنرل قمر جاوید باجوہ چھ سال شاہِ پاکستان رہنے کے بعد اب ریٹائر ہو کر اپنے کسی پسندیدہ ملک جانے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے اقتدار کا سنگھاسن جنرل عاصم منیر صاحب کے حوالے کر دیا ہے۔ پاکستانی قوم کو پچھتر سال ہو گئے یہ کہتے کہ نئے آرمی چیف کے پاس نئی روایات قائم کرنے کا سنہری موقع ہے اور کہانی ہر بار "جنرل صاحب پانج وقت دے نمازی، تہجد گزار تے انڈیا دا گانڑاں کدی نئیں سنڑیا سے شروع ہو کر مندرجہ بالا حالات سے گزر کر فیکٹ فوکس کی کسی سٹوری پر ختم ہوتی ہے۔

طالبعلم بھی اسی قوم کا ادنیٰ سا باشندہ ہے۔ میں نے اپنی فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی تھی جس میں یہ جنرل عاصم منیر صاحب کے لیے چند مخصوص دعائیں لکھی تھیں کہ خدا کرے وہ انڈیا کے گانے سنتے ہوں، خدا کرے انکی نمازوں اور تہجد کے وقت کا کسی ملاں صاحب کو پتا نہ چلے، خدا کرے کہ انہیں آخری فروری کی بجائے پہلے فروری میں ہی پتا چل جائے کہ ملک ڈاکٹرائن کی بجائے آئین پر چلتا ہے لیکن میرے ایک دوست نے مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک ٹویٹ دکھا کر مجھے آئینے کے سامنے کھڑا کر دیا۔

میں نے آئینے میں دیکھا کہ جنرل مشرف سے شروع ہو کر جنرل عاصم منیر معذرت جنرل حافظ عاصم منیر صاحب تک پھر معذرت جنرل سید حافظ منیر صاحب تک اگر کچھ بدلا ہے تو میرے بالوں کی سفیدی۔ اور سفید بالوں میں خوش فہمیاں نہیں پلتی دوستو۔

Check Also

Jadeed Maharton Ki Ahmiyat, Riwayati Taleem Se Aage

By Sheraz Ishfaq