Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Faisal Movers Ka Boycott Banta Hai Sahib

Faisal Movers Ka Boycott Banta Hai Sahib

فیصل مورز کا بائیکاٹ بنتا ہے صاحب

"سجدہ" اپنی فلاسفی میں یہ کائنات سمیٹے ہوئے ہے۔ ابلیس کے آدم کو سجدے سے انکار، اور پھر فرشتوں کے مسجود آدم کے "ربنا ظلمنا" کے ساتھ سجدہِ پروردگار میں اس سارے نظامِ حیات کا راز مضمر ہے۔

نماز کیا ہے۔ بارگاہِ خداوندی میں وہی سجدہ ہے۔ یہ اظہارِ عبودیت ہے۔ خدا نے اسے پانچ متعین اوقات میں انسان پر فرض کیا ہے۔ خطا ہماری سرشت میں ہے۔ مگر انسانیت کا سب سے ارفع مقام پیشانی خدا کی تعظیم میں جھکا کر ہم ایک ہی وقت میں ابلیس کی سنت کی نفی اور جناب آدم کی سنت کی توثیق کرتے ہیں۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

ہمارا پروردگار حساس ہے۔ اس نے عبد پر عبادت فرض کی تو اسکی مجبوریوں کا احساس رکھا۔ انسان صدا کا مسافر، کہیں بہشت کے کسی باغ سے زمین تلک عازمِ سفر ہوا۔ یہاں سے اسے واپس جانا ہے۔ رزق کے جس دانے کی وجہ سے یہاں آیا تھا اسی کے باعث واپسی ہوگی۔

سجدہ غلام کا فرض ہے ہی اس لیے کہ مالک کا حق ہے۔ مگر مالک بڑا اعلی ظرف ہے، کہتا ہے مجھے احساس ہے کہ روزگار، کاروبار یا دیگر امور کی وجہ سے ازل کا تو مسافر، سفر میں ہوگا۔ استثنی نہیں ہے مگر جب تو مسافت میں ہوگا اس میں آسانی کر دوں گا۔ تعداد گھٹا دوں گا۔ وضو کا پانی نہیں تو تیمم کر لے۔ چلتے پھرتے مجھے یاد کر لے، سواری پر سوار ہی میرے سامنے جھک جائے گا تو بھی قبول۔ تیرے وقت اور مصروفیت کا پاس رکھتا ہوں آخر تیرا خدا ہوں۔

سو رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار بھی اپنے پروردگار کو سجدہ کیا اور قرآن نے اس طریقت کو کائنات کے آخری سجدے تک "اسوہِ حسنہ" قرار دیا۔ تو پھر یہ طریقت کس کی ہے؟

کہیں پڑھا تھا حضرت عمر ایک قافلے کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے تو کہیں قریب پہنچ کر راستے میں نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت عمر نے کسر نماز پڑھی۔ پوچھا گیا ہم تو اتنے نزدیک ہیں کہ مسجدِ نبوی کے مینار دیکھ سکتے ہیں۔ تو حضرت عمر نے کہا جس کا مفہوم ہی یاد ہے کہ خدا کی نعمت سے انکار کیوں کرتے ہو؟

ہم نے کرنا صرف یہ تھا کہ اپنے سجدے سے متعلق خدا کی طرف سے دی گئی اس نعمت پر ایک سجدہِ شکر ادا کرنا تھا کہ ہمارے خدا نے ہمیں ہماری "استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں اٹھوایا" مگر ہم تو "اللہ کی نعمت کا انکار کرنے لگے"۔ اس انکار کے پیچھے محرک کیا ہے؟ وہی ایک۔ بس وہی ایک۔

پچھلے دنوں ایک لمبے سفر سے گھر واپسی پر سفر میں دو حصوں میں کٹنا تھا۔ میں اپنی طرف سے جلدی دن بارہ بجے والے ٹائم پر اس لیے نکلا تھا کہ آگے کی آخری گاڑی پکڑ سکوں۔ راستے میں دو دفعہ خدا کی طرف سے دی گئی سہولت کا انکار کرنے والوں نے آدھا آدھا گھنٹہ گاڑی رکوائی اور نتیجہ یہ نکلا کہ میں اپنی منزل کی طرف جانے والی آخری گاڑی نہ پکڑ سکا۔ پر کسی کی بلا سے کہ منزل کی طرف آخری گاڑی چھوٹ جانے کا کرب کیا ہوتا ہے۔ اسکی وجہ سے جسمانی تکلیف کے ساتھ مالی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑا۔

میں تو خوش قسمتی سے اکیلا تھا مگر ساتھ ایک اور فیملی تھی جنہیں دقت میں دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ وہ ملاں صاحبان تو یہیں کے تھے مگر انہوں نے ہمارے بارے میں خصوصا آگے جانے والے ان چھوٹے چھوٹے بچوں اور خواتین کے متعلق کیوں نہیں سوچا۔ ہمارے ہاں تو ایک مقولہ عام ہے کہ حقوق اللہ تو معاف ہو جائیں گے کہ وہ عالی ظرف شہنشاہ غفور الرحیم ہے لیکن حقوق العباد تو قطعاً معاف نہیں ہونگے، تو؟

سوال یہ ہے کہ نماز خدا کی عائد کردہ ہے خدا نے سفر میں سہولت دی اس سہولت کو محمد رسول اللہ ﷺ نے مشق کرکے دکھایا خدا نے انکے طریقے کو نمونہ قرار دیا تو پھر یہ لوگ وضو کرکے گاڑی میں سوار ہو کر دو نمازیں اکٹھی کرکے کسر رکعات کے ساتھ بسوں کی سیٹوں پر کیوں نہیں پڑھ سکتے۔ جس دقت سے خدا نے بچایا ہے اس میں خود تو کجا دوسروں کو کیوں مبتلا کرتے ہیں؟

طالبعلم نے سر کی سیاہی میں سوال کیا تھا بالوں میں سپیدیِ سحر پھوٹی تو جواب ملا۔

کبھی آپ نے دیکھا کہ جہاں لکھا ہوتا ہے آگے سپیڈ چیکنگ کیمرہ لگا ہے وہاں پاؤں ایکسلریٹر کی بجائے بریک کی طرف جاتا ہے۔ پرینک کرتے ہوئے آخر پر جب کوئی کہتا ہے وہ سامنے کیمرہ لگا ہے ہاتھ ہلا دیں تو چہرے کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔ جہاں لکھا ہو خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے وہاں ہمارے اطوار بدل جاتے ہیں۔

خدا واقعی علیم و حکیم ہے انسان کو خبردار کیا کہ "خبردار کیمرے کی آنکھ تیری نیت کو دیکھ رہی ہے"۔ یہ اطلاع خدا پر یقین رکھنے والوں کے لیے ایک ہمہ وقت جاری رہنے والی باطنی تطہیر کی نوید تھی۔ خدا جانتا تھا اس لیے ریاکاری سے بچنے کے لیے اس درجہ شدید تلقین کی کہ خدا کے نیت پر موجود کیمرے پر انسانی آنکھ کے کیمرے کو فوقیت دی تو شرک۔ دکھاوے کی خاطر سجدہ، روزہ، صدقہ شرک قرار دیا۔ یہاں تلک کہ کسی کے دیکھنے کے زیرِ اثر سجدہ لمحاتی طور پر طویل کر دیا تو بھی شرک۔

لیکن بد قسمتی سے یہاں انسانی مزاج پر جغرافیائی اثرات کی وجہ سے مذہب کی تعریف یہ بن گئی کہ حج کرنے والا نام گھر کی تختی پر حاجی لکھوا کر باقی عمر "حاجی صاحب" کی بازگشت میں گزار کر حضرت ابراہیم کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھولتا اور کھکواتا رہتا ہے۔ صدقہ کرنے والا برائے ایصالِ ثواب یوں لکھتا ہے جیسے فرشتوں کے لکھنے پر یقین نہ ہو۔ روزہ دار ہر کسی کو بتاتا رہتا ہے کہ آج بڑا روزہ لگ رہا ہے، کبھی یہ کہ میرے سامنے کھا رہے ہو میرا روزہ ہے۔ اور سب چھوڑیے۔۔ ایک پلاسٹک سرجن کے مطابق ماتھے پر مہراب بنوانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

سو سجدے میں چھپے رازِ حیات کو ابلیس نے بھلایا تھا اسکے مسجود انسان نے بھی بھلا دیا۔ اس نے کہا میں آگ کا آدم مٹی کا سجدہ نہیں بنتا۔ سو وہ بھی اپنی ذات کا اسیر ٹھہرا ہم بھی اسی نفس کے غلام ہوئے۔

مذہب جب خدا اور بندے کے درمیان تعلق کی بجائے ایک ریا کی خو بن جاتا ہے تو انسان کی نفسیات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتا ہے۔ اب مخفی نیکی اس نفسیاتی خو کی تسکین نہیں کرتی۔ حج کیا اور حاجی صاحب نہ کہلایا تو فائدہ کیا۔ صدقہ خیرات کرکے لوگوں میں سخی و غنی مشہور نہ ہوا تو بے سود۔ الغرض سفر میں خدا کی دی ہوئی سہولت و نعمت کا فائدہ خود بھی اٹھایا اور دوسروں کو بھی اٹھانے دیا تو اس خواہش کی تکمیل تو نہ ہوئی۔ اب اس خواہش کی تکمیل میں فیصل مورز رکاوٹ ڈالے تو بائیکاٹ تو بنتا ہے صاحب۔

Check Also

Aik Chiragh Aur Aik Kitab

By Muhammad Saqib