Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Dil Ka Chiragh Jalta Rahe

Dil Ka Chiragh Jalta Rahe

دل کا چراغ جلتا رہے

ضیاء ہمارے گھر کام کرنے والی خاتون کا بیٹا ہے۔ سوچتا ہوں آج کل راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے وارڈ کے باہر بینچ پر بیٹھ کر سوچتا کیا ہوگا۔

اسکا باپ سندھ کے دریا میں دریا بُرد ہو کر زمانے کے سمندر میں انہیں تنہا چھوڑ گیا۔ پھر زندگی کی کشتی تھی ضرورتوں کے گرداب تھے اور اسکی ناخدا ماں۔ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی۔ دل میں اک خواب پال لیا۔ بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائے۔ میری بیگم سے بات بعد میں کرتی ہے۔ اس خواب کو آنکھوں کے پانی سے سیراب پہلے کرتی ہے۔ اسکو بھی روتی آنکھوں سے آنسو بانٹنے کا شغف بہت ہے۔ خدا کہتا ہے لے پھر۔

جن دلوں کی دھڑکنیں بھوک سہما دے انکے لیے خواب پالنا آسان تھوڑی ہے۔ ضیاء آٹھویں میں پہنچا۔ ماں کا دل افلاس سے جنگ ہارنے لگا۔ میانوالی والوں نے راولپنڈی بھیجا۔ اپنی زندگی میں ذاتی تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس سے بڑی انسانیت کی تذلیل کوئی نہیں کہ آخری سانسیں بھرتی قیمتی زندگیاں بڑے شہروں کی شاہراؤں پر ایڑھیاں رگڑنے پر مجبور ہوں۔

ایک تحریر لکھی اور ضیاء کو تھما دی۔ بھلا ہو آر آئی سی کے کارڈیالوجسٹ وقاص مظہر صاحب کا جنہوں نے وہ تحریر پڑھ کر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اسکا کیس دیکھا اور اپنا نمبر اس کاغذ پر لکھ کر بھیج دیا جن سے گاہے بگاہے بڑی رہنمائی ملتی رہی۔

پچھلے دنوں خواب کے بوجھ سے اسکے دل کی دھڑکنیں پھر لڑکھڑانے لگیں تو ڈاکٹر صاحب نے اے ایف آئی سی میں پیڈز کارڈیالوجسٹ سے سیکنڈ اوپینئن لینے کا کہا۔ اب کے تحریر ڈاکٹر بریگیڈئیر خرم صاحب کے نام لکھی۔ وہاں سے کسی ڈاکٹر ولید صاحب نے مجھ سے فون پر بات کی۔

The heart is tending towards failure. She needs immediate admission.

کا جملہ کوئی بجلی بن کر گرا۔ پھر سے وہ چند مناظر۔ ابوجان کی تیز چلتی سانسیں۔ بھابھی جان کی آخری مشفق مسکراہٹ۔ بچپن کے یار قاضی زاہد کی وہ نزع کی ہچکی۔ او خدایا۔ اس کا خواب پورا کر مالک۔

بڑے دل والے وقار یارِ غار کو فون کیا۔ یار اسے آر آئی سی پہنچانا ہے فوراً۔ وقاص مظہر صاحب سے رابطہ کیا انہوں نے کہا ایمرجنسی میں پہنچاؤ۔ ایمرجنسی میں داخل ہوگئی۔ اے ایف آئی سی والوں نے بتایا دل میں سوراخ ہے بچپن سے۔ اب بیماری سٹرکچرل ہارٹ ڈیزیز ہے۔

عجیب نظام ہے غریب کو بیماری کا پتا بھی دیر سے چلتا ہے۔ بہرحال خاتون کا ٹریٹمنٹ شروع ہوگیا۔ ضیاء باہر بینچوں پر آگیا۔ فون پر بات ہوئی۔ بچہ ایک دم بڑا ہوگیا۔ ویڈیو گیمز، موٹر سائیکل، کرکٹ، سکول کی باتیں کرتا کرتا دل کی بیماری کی باتیں کرنے لگا۔ لاعلمی میں خدشات ایسے ہوتے ہیں جیسے بوڑھے پاؤں میں کوئی کانٹا ہو، آنکھ کو دکھائی نہ دے۔ سوئی کے نکے کو سجھائی نہ دے۔ ہلتا ہو درد کرتا ہو نکلتا نہ ہو۔

اسے شاباش دی۔ زندگی کا بہت بڑا کام کر رہے ہو۔ ہمت رکھنا۔ انشاللہ تمہاری والدہ ٹھیک ہو جائے گی۔

سوچتا ہوں ضیاء کیا سوچ رہا ہوگا۔ اے خدا تجھ سے اس معصوم کا دل کیا کہہ رہا ہے۔ اسے میں اکثر کہتا ہوں میڑک تو کر لے انشاللہ اس سے آگے اپنے والا ڈپلومہ تجھے میں کرواؤں گا۔ تو میرا بھی خواب ہے چندا۔ میں بھی اندھیرے نامہِ اعمال میں تیری ضیاء بھرنا چاہتا ہوں بیٹے۔

خدایا آر آئی سی میں ایک یتیم بچہ تجھ سے اپنی ماں کے دل کی سلامتی مانگ رہا ہے۔ اے فراخ دل شہنشاہ اسکی دعا سن لے۔ اس دل میں ایک خواب پلتا ہے۔ وہ جو خود اس خواب کی تعبیر ہے وہ خواب کی خیر مانگتا ہے۔ اسکی ماں کو صحت دے دے مالک اگر اسکی ماں کا دل تھم گیا تو وہ خواب مر جائے گا۔ خواب مر گیا تو تعبیر جیتے جی دفن ہو جائے گی۔

اے خواب و تعبیر کے مالک خواب کا زندہ رہنا ضروری ہے۔ اسکی ماں کے دل کا دیا جلتا رہا تو ضیاء کو اسکی روشنی مل سکے گی۔ ضیاء کی دنیا اندھیر نہ ہو اے پروردگار۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra