Cricket World Cup Final
کرکٹ ورلڈکپ فائنل
عصبیتں سیاہ بالوں میں پلتی ہیں اس سیاہی کے ساتھ ہی روانہ ہونے لگتی ہیں۔ اسی لیے کاروبارِ عصبیت جوان لہو کے ایندھن سے چلتا ہے۔ یہ کرکٹ ورلڈکپ کسی عصبیت کے بغیر دیکھا۔ دل یہی تھا کہ جو اچھا کھیلے وہی جیتے اور اس ورلڈکپ میں بھارت سے اچھی کرکٹ کسی ٹیم نے نہیں کھیلی مگر وہ فیصلہ کن اور بڑا میچ۔۔ جی ہاں فائنل۔ آپ جانتے ہیں کہ آسٹریلیا فاتحِ عالم ہو چکا۔
آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر بھارت کو بلا تھمایا اور خود گیند لے کر میدان میں پھیل گئے۔ داد دینی ہوگی اپنے خطرناک گیم پلان کو جتنی کاملیت سے انہوں نے پروان چڑھایا وہ دیدنی تھا۔ اسے خطرناک لکھنے کی وجہ بھارتی کپتان کا وہ جارحانہ آغاز تھا جو اس پورے ورلڈکپ کا خاصہ رہا۔ لیکن کل تیس گیندوں میں سینتالیس رنز جڑ کر میکس ویل کو چھکا اور چوکا لگانے کے بعد بھی تیسری بال پر آگے نکل کر چھکے کی کوشش میں غلط کھیل گئے اور چلتے بنے۔ یہ میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ روہیت کی غیر ضروری حد تک جارح مزاجی اور اسکے بعد سمیت ویرات کوہلی کے تمام بلے بازوں کی متجاوز دفاعی حکمتِ عملی نے آسٹریلیا کے گیم پلان کو ڈریسنگ روم سے اٹھا کر میدان میں کاپی پیسٹ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ماڈرن ڈے کرکٹ کی سب سے خاص بات ہی یہ ہے کہ ٹاپ آرڈر کے جلدی لڑھک جانے کے باوجود بیٹسمین ایوریج نہیں گرنے دیتے۔ جو ٹیمیں اس جدید تیکنیک کو نہیں سیکھ رہیں وہ قدرت کے نظام کے گرد ہی گھوم رہی ہیں۔
روہیت شرما کے تیز کھیلنے کے باوصف بھارت پندرھویں اوور میں سو رنز مکمل کر چکا تھا اور یہیں شماریات کے آئینے میں دیکھا جائے تو بھارتی بلے بازوں کی بزدلانہ حد تک محتاط بیٹنگ انکے تیسری دفعہ ورلڈکپ جیتے میں آڑے آ گئی کہ وہ باقی ماندہ دوسودس گیندوں میں صرف ایک سو چالیس رنز بنا پائے۔ باقی پوری ورلڈکپ کے دس میچوں میں بھارتی بلے بازوں کا ریکارڈ اس سے بالکل متضاد تھا۔ محض سیمی فائنل میں ہی نیوزی لینڈ کے خلاف کے ایل راہول کی بیٹنگ دیکھ لی جائے تو مائینڈسیٹ کا فرق نظر آ جاتا ہے جو کہ میچ کے نتیجے پر اثرانداز ہوا۔ انیس سو ننانوے میں پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ پاکستان نے بھی بھارت کی طرح پول میچ ہرا کر آسٹریلیا ہی سے فائنل ہارا تھا۔
ویرات کوہلی کے متعلق میں نے لکھا تھا کہ بلے کی تلوار سے میدان کرکٹ کو سر کرنے والا وہ بیٹنگ کی سلطنت کا بادشاہ ہے۔ مین آف دی ورلڈکپ اس شہنشاہِ بلے بازی کے مطلب کا میچ بن گیا تھا۔ یقیناً بدقسمتی ہے ان سائیڈ ایج لگ کر آؤٹ ہونا لیکن آپ پل شاٹ کو روک کر جب ڈبل مائنڈڈ ہوتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے۔ دونوں اینڈز سے اس درجہ دفاعی کھیل سمجھ سے بالاتر ہے جب آپ پارٹ ٹائمرز پر بھی چانس نہیں لے رہے۔ کے ایل راہول نے تو کل سات اوورز میڈن کھیلے۔ سوریا کمار کو اپنی نیچرل گیم کرنی چاہیے تھی۔ جو وہ نہ کر سکا۔
بہرحال جب آسٹریلیا 240 رنز کے تعاقب میں نکلا تو ایک بار پھر انڈین تھنک ٹینکس نے حیرت کے سمندر میں غوطے دلوائے۔ بھئی محمد شامی پورے ورلڈکپ میں فرسٹ چینج باؤلر بن کر تنِ تنہا میچ جتواتا رہا اور آپ نے اسے نیا بال پکڑا دیا صرف اس ڈر سے کہ کہیں سراج کو رنز نہ پڑیں۔ یہ بہت غلط حکمتِ عملی ثابت ہوئی۔ جونہی شامی نے نیا بال پکڑا میں نے بولا اور لکھا کہ یہ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ اس سے ناصرف شامی کا دباؤ آپ نے ختم کر دیا بلکہ محمد سراج کو بھی عملی طور پر گیم سے آؤٹ کر دیا۔ حالانکہ اس موقع پر کپتان کو سراج کو بیک کرنا چاہیے تھا کہ وہ بھی مین سٹرائیک باؤلر رہا ہے پورے ٹورنامنٹ میں۔
سو بیٹنگ کی طرح باؤلنگ میں بھی دفاعی حکمتِ عملی آسٹریلین بلے بازوں کے لیے سونے پہ سہاگہ ثابت ہوئی۔ اوپر تلے تین وکٹوں کے نقصان اور کچھ متزلزل سے آغاز کے بعد ٹریوس ہیڈ اور لیبوشائر بھارت کے خوابوں کو بلے سے چکناچور کر گئے۔
آسٹریلیا کے آف دی فیلڈ محنت اور ہوم ورک کی کاملیت کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ کلدیپ کی ایک بھی گگلی کو مس ریڈ نہیں کیا۔ جدیجہ کی آرم بال کو بڑے اطمینان سے سیدھے بیٹ سے روکتے رہے۔ روہیت شرما نے کل اس وقت آخری بار حیران بلکہ مایوس کر دیا جب وہ جانتے تھے کہ آسٹریلیا کو کسی صورت روک نہیں سکتے، بلکہ جیتنے کی ایک ہی صورت ہے کہ انہیں آؤٹ کیا جائے اور اپنے دونوں سپنرز کو اٹیکنگ فیلڈ فراہم کی جائے لیکن سلپ نہ ہونے کی وجہ سے ایک کیچ ہیڈ کا اور ایک لیبوشائر کا نکلا۔ اور یہی بھارتی فتح کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
بومرا کی گیند پر انتہائی اہم موقع پر امپائر نے آؤٹ نہیں دیا اور ریویو میں بھی امپائرز کال ہوگئی۔ اگر وہاں امپائر آؤٹ دے دیتا تو شاید کوئی ٹوئسٹ ممکن ہوتا لیکن آسٹریلیا نے مکمل طور پر خود کو ورلڈکپ فاتح کا حقدار ثابت کیا۔ بہترین باؤلنگ، شاندار فیلڈنگ اور پر اعتماد جارحانہ بیٹنگ کے ساتھ ساتھ پیٹ کمنز نے کپتانی میں بھی خود کو اپنے حریف سے بہتر کپتان ثابت کیا۔ آسٹریلیا اگلے چار سال کے لیے فاتحِ عالم ٹھہرا۔ یقینا انکے دیس کے لیے مبارکباد اور بھارتیوں سے ہمدردی ہے۔
2023 کاورلڈکپ فائنل جہاں بھارت کے لیے مستقبل کی کرکٹ کو بہتر بنانے کے لیے سبق چھوڑ گیا وہیں ایک درس ہماری ہاری ہوئی قومی نفسیات کے لیے بھی ہے کہ اگر بھارت کو سارے ورلڈکپ میں میچ ریفری ٹاس جتوا رہا تھا، انکے باؤلرز کو "ڈیوائس" والی گیند دی جا رہی تھی، ڈی آر ایس انکے حق میں استعمال ہو رہا تھا تو یہ سب کچھ فائنل میں کیوں نہیں تھا۔ لیکن یہ کرکٹنگ افلاطونیت پھیلانے والے اپنی شرمندگی بھارتی ہار پر جشن سے چھپانے میں مصروف ہیں۔
حد ہے ویسے کل راقم کے ایک فیس بک دوست نے لکھا کہ " اللہ نے بھارت سے پاکستان کو امپائرز کی مدد سے ہرانے کا بدلہ لیا۔۔ عرض کیا حضور اللہ نے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سے ایک ٹیم کو کیوں چنا اور قادرِ مطلق کی ٹیم اسکی مخلوق امپائرز کی مبینہ بددیانتی سے ہار کیسے گئی؟ پھر یہ کہ اللہ نے اپنی تینوں ٹیموں میں سے کسی ایک کو جتوانے کی بجائے اسے ورلڈکپ کیوں جتوا دیا جس نے تینوں مسلمان ٹیموں کو ہرایا؟ انہوں نے جواب نہیں دیا۔ حالانکہ ان سوالوں کے جواب خدا واضح طور پر دے رہا ہے لیکن ہمیں سنائی نہیں دیتے۔ کوئی سمجھے تو اصل قدرت کا نظام یہ ہے۔
پسِ تحریر! عام لوگوں سے کیا گلہ جب ٹی وی پر بیٹھ کر نامی گرامی کرکٹ مبصرین مندرجہ بالا ذہن سازی کریں گے تو ہماری نفسیات ایک ہاری ہوئی قوم جیسی نہیں ہوں گی تو کیا ہوگی۔ جس میں کوئی بھارت کی ہار کو اپنی انا کی تسکین کہہ رہا ہوگا کوئی خدا کا انتقام۔