Spain Ka Pul, Pakistani Nojawan Aur Gori Maim (2)
سپین کا پل، پاکستانی نوجوان اور گوری میم (2)
پاکستان کے سینیئر سفارت کار حسن حبیب کی زندگی کے کچھ مزید گوشوں پر، اس کالم میں بات کریں گے۔ پچھلے کالم کا رسپانس غیر معمولی تھا۔ بہت سے لوگوں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اتنا سادہ ہو سکتا ہے کہ اس بات پر یقین کرکے بیرون ملک چلا جائے کہ خوبصورت گوری میم وہاں اس کے لیےآنکھیں بچھائے بیٹھی ہے۔
ابھی کچھ ہی مہینے پہلے ڈنکی لگا کر اٹلی جانے کی کوشش میں جان دینے والے پاکستانیوں کی ہلاکت کی خبر ہم سب جانتے ہیں اور وہ لوگ مفت میں نہیں جا رہے تھے، بلکہ ہر شخص نے 30 سے 35 لاکھ تک ایجنٹ کو ادا کیے تھے۔
محترم دوستو! ایک بڑی ترغیب پر انسان کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ حسن حبیب صاحب نے سوئٹزرلینڈ میں کچھ سال کام کیا۔ بتایا کہ پاکستان کے ایک مقامی کالج کے پرنسپل نے ان سے رابطہ کیا اور خوشی سے بتایا کہ ان کا تین لاکھ ڈالر کا انعام نکلا ہے۔ ایک سوئس بینک اس رقم کو پروسس کر رہا ہے۔ آپ سفارت خانے کے ذریعے اس کام کی سپیڈ کو تیز کروائیں۔
حسن صاحب نے جواب دیا کہ بھائی یہ سب فراڈ ہے وہ صاحب ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ ان کے بتائے ہوئے بینک میں فون کیا تو بینک کے عملے نے ایسی کسی قسم کی ایکٹیوٹی سے انکار کر دیا۔ پاکستان میں موجود صاحب لڑنے پر تیار بیٹھے تھے وہی سپین کا پل ان کے خیالوں میں ایک اور زاویے سے موجود تھا اور وہ خواب و خیال میں اپنے آپ کو تین لاکھ ڈالر کا مالک سمجھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔
سوئس کلچر کی تعریف کرتے ہوئے حسن حبیب کہتے ہیں کہ سوئس لوگ کام سے آدھا گھنٹہ پہلے آفس آتے ہیں۔ پہلے اپنے ڈیسک کو صاف کرتے ہیں اور پھر کام شروع کرتے ہیں۔ کسی سے ملنے جانا ہو تو 20 منٹ پہلے مقررہ مقام پر پہنچ جاتے ہیں وہاں پر انتظار کرتے ہیں اور ٹھیک دو منٹ پہلے ملاقاتی کے پاس پہنچتے ہیں۔
محبت کی ایک دلفریب داستان سنائی ایک پاکستانی نوجوان 70 سال سے زائد عمر کی سوئس خاتون سے شادی کا خواہش مند تھا۔ اس کی درخواست پروسس سے گزرتی ہوئی مقامی پولیس چیف تک پہنچتی ہے وہ حسن حبیب صاحب کو فون کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دونوں کی عمروں میں بہت زیادہ فرق ہے اس لیے میں اس کیس کو اپروو نہیں کروں گا۔ تین سے چار مہینوں کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ شادی ہوگئی حسن حبیب پولیس چیف سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیسے اس شادی پر رضامند ہو گئے۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر چیف نے کہا وہ اولڈ لیڈی ہر روز صبح میرے آفس میں آجاتی اور صرف ایک ہی بات کہتی رہتی "مائی لو"۔
اس کے بار بار آنے سے پریشان ہو کر میں نے درخواست قبول کرنے میں عافیت جانی۔ بقول ڈاکٹر بدر منیر
وجود زن کا حسیں فلسفہ بجا لیکن
سکوت زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
میں نے مسکرا کر پوچھا پھر اس شادی کا کیا نتیجہ نکلا؟
انہوں نے بتایا کہ میرے سوئٹزر لینڈ میں قیام تک تو یہ جوڑا خوشی سے زندگی گزار رہا تھا۔
سوئٹزرلینڈ میں گندھارا ایگزیبیشن کا انعقاد ایک دل کو چھو لینے والا واقعہ ثابت ہوا۔
حسن حبیب نے انتظامیہ سے پوچھا کہ اس ایگزیبیشن میں کم از کم کتنے لوگ آجائیں کہ اس کے اخراجات کور ہو جائیں۔ جواب ملا 10 ہزار لوگ آئیں تو ہم بریک ایون کی پوزیشن پر آجائیں گے۔ ایگزیبیشن کا تھیم بنایا جاتا ہے سوات میوزیم کے کیوریٹر کی سپیچ پہلے رکھی جاتی ہے۔
کیوریٹر نے سٹیج پر آ کر کہا کچھ سال پہلے ایک دن سوات کے نیشنل میوزیم کا عملہ دن میں اپنا کام ختم کرکے گھر واپسی کی تیاری کر رہا تھا کہ دہشت گردوں کا ایک مسلح گروہ میوزیم کے سامنے نمودار ہوتا ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ میوزیم میں موجود قیمتی اور نایاب نوادرات جن میں سے بیشتر کا تعلق گندھارا کی بدھا تہذیب سے تھا کو تباہ کیا جائے۔ میوزیم کا عملہ ان سے درخواست کرتا ہے کہ آپ یہ کام نہ کریں۔ دہشت گردوں کی آنکھوں میں خون سوار ہوتا ہے اور وہ سختی سے عملے کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ گفتگو جاری رہتی ہے، جدید آٹومیٹک اسلحہ نکالا جاتا ہے اور یہاں پر ایک حیران کن واقعہ پیش آتا ہے۔ میوزیم کا عملہ ان دہشت گردوں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ اگر آپ میوزیم کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام ہماری زندگیوں میں نہیں ہو سکتا آپ پہلے ہم سب کو قتل کر دیں اور اس کے بعد اپنا کام کریں۔
دہشت گردوں کی عقل حیران تھی کہ میوزیم کا عملہ جس کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل تھی بدھا کے نوادرات کو بچانے کے لیے اپنی جان کیوں دینا چاہ رہا ہے؟ وہ عملے کو دھمکاتے ہیں ان کے سینے پر اسلحہ رکھ دیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے وہ بہادر سپوت اپنی جگہ چھوڑنے سے انکار کر دیتے ہیں اور دہشت گرد ناکام واپس چلے جاتے ہیں۔
ہزاروں شرکاء کے سامنے جب یہ واقعہ بیان کیا گیا تو دنیا بھر سے موجود لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان کے سر احترام سے جھکے ہوئے تھے۔ منیر نیازی یاد آگئے۔۔
روشنی در روشنی ہے اس طرف
زندگی در زندگی ہے، اس طرف
ایگزیبیشن کامیابی کے ساتھ ختم ہوا اور 20 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اس میں شرکت کی پاکستان کا سافٹ امیج ڈیویلپ کرنے میں اس ایونٹ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
سوئس چیمبر آف کامرس میں پاکستانی چیپٹر کی لانچنگ پاکستان سفارت خانے کا ایک اہم سنگ میل تھا۔
اس سلسلے میں میٹنگز کے دوران حسن حبیب نے سوئس آفیشلز کو بتایا کہ 1500 سے زیادہ سوئس بزنس مین ایک سال میں پاکستان کا وزٹ کرتے ہیں اور ان میں وہ لوگ شامل نہیں جو وزٹ ویزے پر پاکستان آجاتے ہیں۔ سوئس چیمبر میں پروان چڑھنے والا یہ درخت زبردست طریقے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو نئی بلندیاں مہیا کر رہا ہے۔
حسن حبیب نے اپنے اندر کا بچہ مرنے نہیں دیا کہتے ہیں ہمارے بچپن میں جمعرات کے دن 20 منٹ کے کارٹون آتے تھے محلے میں کسی کسی کےگھر میں ٹیلی ویژن ہوتا تھا سب بچے بڑے مل کر اہتمام کے ساتھ ان کارٹونز کو انجوائے کرتے تھے۔ وہ آج بھی فارغ اوقات میں کارٹون دیکھتے ہیں۔
سکول کے ایام میں درختوں پر چڑھنا، بوڑھے چوکیدار کا بچوں کے نام لکھنا، صبح اسمبلی میں ہیڈ ماسٹر صاحب کی سرزنش، سکول کی دوستی کا لائف لانگ تعلق میں تبدیل ہونا، یادوں کے ان گنت موتی ان کی یادداشت میں ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ تدریس میں آنے کا فیصلہ کیا اور ایک ممتاز تعلیمی ادارے میں سٹوڈنٹ کو انٹرنیشنل ریلیشن اور پاک سٹڈیز کے سبجیکٹس پڑھا رہے ہیں۔
ہماری ملاقات کے دوران سٹوڈنٹس ان سے اپنے کیریئر کے بارے میں رہنمائی لیتے رہے جو ان کی سٹوڈنٹس کے ساتھ سٹرانگ بانڈنگ کو ظاہر کرتی ہے۔
ایک کتاب پر بھی کام کر رہے ہیں جو یقیناََ بک لورز کے لیے ایک شاندار تحفہ ثابت ہوگی میں نے پوچھا سٹوڈنٹس کے پوٹینشل کے بارے میں کہنے لگے کووڈ کے بعد پڑھائی میں دلچسپی کم ہوگئی ہے شارٹ کٹ کی تلاش اور بڑھ گئی ہے برین ڈرین میں اضافہ ہوا ہے جو کہ الارمنگ ہے۔
میں خود بھی یونیورسٹیز میں لیکچرز دیتا ہوں اور اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہوں کہ حسن حبیب صاحب جیسے استاد ہی کسی ادارے کو نئی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔
اپنے اس نئے رول میں وہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ ان کا عزم جوان ہے اور اپنی کتاب اور شاگردوں کے ذریعے وہ اپنی میراث چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اپنے نوجوانوں اور وطن پر ان کی امید اور عزم محسوس کرکے شاکر شجاع آبادی یاد آگئے۔۔
دعا شاکر تو منگی رکھ
دعا جانے خدا جانے