Pakistani Hindu
پاکستانی ہندو
Republic Tv کا شمار بھارت میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے نیوز چینلز میں ہوتا ہے۔ 2017ء میں شروع ہونے والے اس چینل نے دیکھتے ہی دیکھتے بھارت میں مقبول حاصل کرلی، مگر اس چینل کی مقبولیت کا راز صرف اور صرف پاکستان مخالف پروپیگنڈا ہے۔ ویسے تو بھارت کا ہر چینل ہی پاکستان مخالفت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا مگر اس چینل کا ریکارڈ سب سے اوپر ہے۔ اس چینل کا مشہور صحافی ارنب گوسوامی ہے جوکہ اس چینل کا مالک بھی ہے۔
ارنب گوسوامی اپنے چینل پر پرائم ٹائم میں شو کرتا ہے اور اس کے 90 فیصد سے زیادہ شوز کا موضوع پاکستان ہی ہوتا ہے جس میں اکثر اوقات پاکستان سے بھی کچھ تجزیہ نگاروں یا پاکستان کے کچھ صحافیوں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ ارنب گوسوامی کے شو میں ہی انڈیا کا بدنام زمانہ میجر گورو آریا بھی، بحیثیت دفاعی تجزیہ نگار شریک ہوتاہے۔ ارنب اور گورو کی طرف سے اکثر یہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ 1947ء میں جب پاکستان آزاد ہوا تھا تب وہاں ہندوؤں کی تعداد 12 یا 13 فیصد تھی جو کہ اب کم ہوکر 2 فیصد پر آچکی ہے حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تو تعداد بڑھنی چاہئے تھی تو یہ کم کیوں ہوگئی۔ یہ سوال بھارت کے دوسرے نیوز چینلز پر بہت زور شور کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے۔ جس کا جواب اکثر پاکستان کے لوگ جو بھاری چینلز میں مدعو ہوتے ہیں، نہیں دے پاتے اور آئیں بائیں جھانکتے رہتے ہیں۔ اسی ڈیٹا کی بنیاد پر بھارتی میڈیا پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں پر مظالم کی نام و نہاد جھوٹی کہانیاں سناتا رہتا ہےاور پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے۔
کیا واقعی حقائق ایسے ہے جیسے بھارتی میڈیا بیان کرتا ہے یا ہمیشہ کی طرح حقیقت کچھ اور ہے۔ آئیے جانتے ہیں۔ 1947ء میں پاکستان کو آزادی حاصل ہوئی اور 1951ء میں متحدہ پاکستان میں پہلی بار مردم شماری ہوئی۔ پہلی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی ٹوٹل آبادی 7کروڑ 57 لاکھ تھی، جس میں سے مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ جبکہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کی آبادی 4کروڑ 20لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ پاکستان کی ٹوٹل 7کروڑ 57 لاکھ کی آبادی میں سے 12.9 فیصد لوگ ہندو تھےجوکہ تقریبا 97لاکھ 65 ہزار لوگ بنتے ہیں، تب کے پاکستان میں دنیا میں بھارت کے بعد سب سے زیادہ ہندو آبادی پاکستان میں مقیم تھی۔ ان میں سے صرف5لاکھ 40ہزارہندو جوکہ مغربی پاکستان کی آبادی کا 1.6 فیصد بنتے تھے، مغربی پاکستان میں رہتے تھے جبکہ 92لاکھ 40ہزار کے قریب ہندو جوکہ مشرقی پاکستان کی آبادی کا 22فیصد بنتے تھے، مشرقی پاکستان میں رہائش پذیر تھے۔
پاکستانی ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد چونکہ مشرقی پاکستان میں رہائش پذیر تھی اسلئے جب 1971ء میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا تو جو ہندو بنگلہ دیش میں رہائش پذیر تھے وہ بنگلہ دیش کے رہائشی بن گئے۔ اس لئے 1947ء میں جو ہندو پاکستان کی ٹوٹل آبادی کا 13 فیصد تھے وہ 1971ء میں کم ہو کر باقی بچ جانے والے پاکستان میں 2 فیصد پر آگئے کیو نکہ مغربی یعنی موجودہ پاکستان میں ان کی آبادی پہلے سے ہی 1.5 سے 2 فیصد کے درمیان تھی۔ اور نمبرز کے اسی اتار چڑھاؤ کو بنیاد بنا کر بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کا محاذ گرم رکھتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ 1951ء میں مگر مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان میں اُس وقت ہندو 5 لاکھ 40 ہزار تھے جو کہ اب 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 45لاکھ ہوچکے ہیں جوکہ 2017ء کی مردم شماری ہی کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی کا 2.15 فیصد بنتے ہیں۔ اور آج بھی پاکستان میں اسلام کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہندو ازم ہے۔ اور جہاں تک بات ہے پاکستان میں رہنے والے والے ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کی تو یہ پروپیگنڈا کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان کے ہندوؤں کو وہ سب حقوق حاصل ہیں جو کہ ایک عام پاکستانی کو حاصل ہیں۔ پاکستانی ہندو آپ کو پاکستان کی تمام شعبہ زندگی میں مل جائیں گے۔ جسٹس رانا بھگوان داس سپریم کورٹ کے جج رہ چکے ہیں، دانش کنیریا پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں کھیل چکے ہیں، منیشا روپیتا پاکستان پولیس میں DSP کے عہدے پر تعینات ہیں، ثنا رام چند گلوانی CSS کرنے کے بعد پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر حسن ابدال میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات ہیں اور تلسی میگھواڑ پاکستان کا نام بیس بال میں روشن کررہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی سیاست اور شوبز کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ہندو آبادی ملک کا نام روشن کررہی ہیں۔
پاکستانی تجزیہ نگار جو بھارتی میڈیا میں بطور مہمان جلوہ افروز ہوتے ہیں انہیں بھارتی چینلز پر یہ بھی بتانا چاہئے کہ پاکستان میں آج تک سیاسی یا فوجی کسی حکمران نے ہندو مخالف بیانات نہیں دیئے یا کبھی پاکستان میں کسی سیاسی جماعت یا مذہبی جماعت نے ہندو مخالف الیکشن کمپین نہیں چلائی۔ نہ ہی کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت نے کسی ہندو مندر کو توڑنے کیلئے کبھی بلوائیوں کے گروہ کی قیادت کی ہے۔ مگر یہ سب بھارت میں ہوتا رہا ہے اور ابھی تک ہورہا ہے۔ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے بابری مسجد کو منہدم کرنے کے لئے بلوائیوں کے گروہ کی قیادت کی اور اس کے بعد جتنی بھی سیاست کی وہ پاکستان اور مسلم مخالف کی۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تب 2002ء میں انہوں نے کتنے مسلمانوں کو قتل کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ابھی بھی بی جے پی کے ساستدان مسلمانوں کے خلاف کیسی زبان استعمال کرتے ہیں وہ بھارت میں رہنے والے مسلمان اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
بھارت میں مسلمان تو مسلمان خود نچلی ذات کے ہندوؤں کا کیا حال ہیں وہ ایک الگ کہانی ہے۔ ابھی حال میں ہی پاکستان سے کچھ ہندو بھارت میں ہجرت کرکے چلےگئےتھے اور کچھ عرصے بعد واپس پاکستان آگئے۔ ایک انٹرنیشنل میڈیا نے بھارت سے واپس آنیوالے ہندوؤں میں سے ایک کا انٹرویو لیا، جب اُن سے واپس آنے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا پاکستان میں ہم کسی بھی مندر میں جاکر عبادت کرسکتے ہیں مگر انڈیا میں تو ہمیں مندروں میں بھی داخل نہیں ہونے دیا جاتا کیونکہ ہم نچلی ذات کے ہندو ہے۔