Mareez Ko Dawa Na Mil Saki
مریض کو دوا نہ مل سکی
امید تھی کہ گزشتہ 30 اگست کو طلبہ تحریک کچھ کر جاتی مگر وہ کتاب تو بغیر مطالعے کے الماری کی زینت بن گئی یا پھر ہماری معلومات میں کمی تھی خیر جو بھی تھا مگر ایک اندازہ ہوگیا کہ اس ملک میں کچھ ہونے سے پہلے کچھ بھی نہیں کہنا چاہیے، جو بھی تھا وہ ختم ہوا ان سب چیزوں کے بطور قوم ہم عادی ہے۔
اب یکم اکتوبر سنائی دے رہا ہے مگر کچھ ہونے سے پہلے آئندہ کچھ نہیں بولیں گے۔
اس مریض کو دوا کب ملے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر مریض کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور اس خستہ حالی میں بھی حکومت کو ترس نہ آیا اور آئینی ترمیم سے اس مریض کے مرض میں مزید اضافہ کرنا چاہا مگر وہ تو شکر ہے مولانا صاحب نے کچھ رحم دلی سے کام لے کر اپنے وسیع تر تجربے کو استعمال کرکے اس مریض کے حرکت قلب کو معمول پر لایا ورنہ حکومت تو ان سے جنازہ پڑھوانے کی در پر تھی۔
بقول شیخ رشید صاحب مولانا صاحب پہلے روانڈ کے فاتح ہے اور اسی طرح ہے جب تک مولانا صاحب رحم دلی سے کام لینگے تب تک مریض میں رہا سہا دم باقی رہے گا۔ اب آگے کیا ہوتا ہے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور مولانا صاحب کب تک رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
بس اپنے رب سے اتنی التجاء ہے کہ اس مریض کو اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی توفیق دے ورنہ اس مریض سے وابستہ ہر فرد بغیر کسی مرض کے ایسا مرتا رہے گا روتا رہے گا اور اس مریض کو زہر کے ٹیکے لگانے والے خوش ہوتے رہینگے بس خدا اس مریض سے وابستہ عوام کو اس مریض کے صحتیابی کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی توفیق دے۔
کونسی بیماری ہے جو اس مریض کو لاحق نہ ہوئی ہو یہ تو اس مریض کی ہمت ہے کہ ابھی تک حستہ حالی سے مقابلہ کر رہا ہے اور زندہ و جاوید ہے۔
1971کو اس مریض کے فالج زدہ حصے کو کاٹا بھی گیا اس مریض نے وہ بھی برداشت کیا اس مریض نے اپنے سینے پر مارشل لاء کے کئی وحشیانہ وار برداشت کیے اس نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر عافیہ صدیقی، کرنل شیر خان وغیرہ کیساتھ ناروا سلوک کو بھی برداشت کیا، اس مریض کے حوصلے کو بھی سلام کہ اتنے زخم کھانے کے بعد بھی مسکرا رہا ہے۔
سدا مسکراتا رہے پاکستان۔۔