Baba Ye Kya Hogaya
بابا یہ کیا ہوگیا
وہ دلی کی حویلی سے نکلنے والا اپنے خاندان کا آخری شخص تھا۔ یہیں اس نے آنکھ کھولی تھی۔ اسی حویلی کے صحن سے اس نے اپنے باپ کا جنازہ بھی اٹھایا تھا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ اس حویلی کو لاوارث حالت میں چھوڑنے پر مجبور ہوگا۔
گلی قاسم جان کا مرزا نوشاد اپنا تعلق مرزا غالب کے خاندان سے بتاتا تھا۔ اس کا بانکپن خود پکارتا تھا کہ اس کی نسبت غالب سے ہے۔ غدر کے بعد اس کے خاندان کی وہ شان و شوکت تو نہیں رہی تھی لیکن شہر میں مرزا صاحب مرزا صاحب کہہ کر پکارنے والوں کی کمی بھی نہیں تھی جو جانتے تھے کہ یہ مغل زادہ حوادث زمانہ کا شکار ہے۔ جن کی حویلی کے باہر ہاتھی جھولتے تھے آج وہاں فقر کے سائے ہیں۔ مرزا کے پاس بس ایک خاندانی شجرہ رہ گیا تھا اور باپ دادا کی یہ حویلی جس کے در و دیوار اس کے تابناک ماضی سے تاریک حال تک سب کچھ خود ہی بتا دیتے تھے۔
یہ سن 40 کی دہائی ہے۔ دنیا بدل رہی تھی۔ لیکن دلی کئی بار لٹنے کے باوجود ویسی کی ویسی ہی تھی۔ جامع مسجد کے صحن آباد تھے۔ دلی والوں کا بانکپن اور ٹکسالی زبان بھی زندہ تھی۔ علی گڑھ سے اٹھنے والی پاکستان کی آواز پر وہ زیادہ کان نہیں دھرتے تھے۔ کہتے تھے کہ دلی تو سترہ بار لٹ چکی ہے۔ ہمارے اجداد نے اسے نہیں چھوڑا تو ہم کیسے چھوڑ دیں گے۔
مرزا نوشاد بھی مولانا آزاد کا بہت بڑا پیروکار تھا۔ لفظ پاکستان اس کے دل کو نہیں بھاتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو ہی نہیں سکتا۔ وقت اور حالات نے اس کے خیالات کو غلط ثابت کردیا تھا۔
سن 47 آگیا تھا۔ اس کے لیے فیصلے کی گھڑی آچکی تھی۔ اس کے قدم پاکستان کی جانب عازم سفر ہونے کو تیار نہیں تھے۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ اپنے باپ دادا کی قبروں کو چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ جس صحن سے اس کے باپ کا جنازہ نکلا تھا اب اس کا جنازہ بھی وہیں سے نکلے گا۔
وہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔ اسے آج دلی بدلی ہوئی لگ رہی تھی۔ لوگوں کی آنکھوں میں خوف کے سائے تھے۔ ببن میاں کی حویلی بھی جلادی گئی تھی۔ وہ سن رہا تھا کہ عورتوں کو بھی اغوا کیا جارہا ہے۔ اس کا پانچ سال کا بیٹا اسکے ساتھ تھا۔ نجانے اس کے دل میں کیا آیا کہ بیٹے کا ہاتھ تھام کر کھڑا ہوگیا اور قبرستان کی طرف چل پڑا۔
وہ باپ کی قبر پر اداس کھڑا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ قبر سے اس کا باپ اسے کہہ رہا ہے کہ ہماری قبر کی مٹی سوکھی رہ جانے کی فکر نہ کرو۔ جاٶ پاکستان چلے جاٶ۔ تمہیں امان وہیں ملے گی۔ یہاں پہلے بھی شہزادیوں کی عصمتیں لٹی ہیں۔ عزت بچاٶ کہ عزتیں قبروں سے زیادہ محترم ہیں۔
اس نے آخری مرتبہ باپ کی قبر پر پانی ڈالا اور خموشی کے ساتھ شہر خموشاں سےباہر نکل آیا۔ اس نے ایک مرتبہ بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو پتھر کا ہوجائے گا۔ حویلی پہنچ کر اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ تیاری کی جائے۔ ہم پاکستان جائیں گے۔ اس کے کانوں میں باپ کا بس یہی ایک جملہ گونج رہا تھا کہ عزتیں قبروں سے زیادہ محترم ہیں۔
سفر ہجرت کیسا رہا وہ اس نے پاکستان آکر بھی کسی کو نہیں بتایا۔ اس نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اس کی ایک بیٹی نے راستے میں کنویں میں چھلانگ کیوں لگادی تھی۔ اسے خوشی تھی کہ وہ اب پاکستان میں ہے جہاں اس کی عزت محفوظ ہے۔
وہ کراچی کی سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا۔ یہاں کوئی اسے مرزا صاحب کہہ کر پکارنے والا نہیں تھا۔ ہاں لیکن یہ اطمینان تھا کہ یہاں اس کی عزت محفوظ ہے۔ اسے پاکستان اس خواب کی تعبیر ہرگز نظر نہیں آرہا تھا کہ جس کی تصویر وہاں ہندوستان میں مسلمانوں کو دکھائی جاتی تھی۔ ظلم کے اندھیرے یہاں بھی اتنے ہی گہرے تھے جتنے انگریز کے ہندوستان میں تھے۔
اسے احساس ہونے لگا تھا کہ بس چہرے مختلف ہیں لیکن انداز ایک سے ہیں۔ اس کی واحد زندہ بچ جانے والی بچی اب بڑی ہورہی تھی اور اس کے کاندھے اتنے ہی ناتواں ہورہے تھے۔ اس کا وہ پانچ سال کا بیٹا جس کی انگلی پکڑ کر وہ آخری بار قبرستان سے باہر نکلا تھا آج ایک قبرستان میں گورکن تھا۔ مغل زادہ قبریں کھود رہا تھا لیکن وہ مطمئن تھا کہ یہاں اس کی عزت تو محفوظ ہے۔
وہ اپنے کچے مکان میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ آنکھوں میں ویرانی تھی۔ اس کی بیٹی صبح سے لاپتہ تھی۔ انجانے وسوسے اس کا دل لرزا رہے تھے۔ وہ خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس کے باپ نےکہا تھا کہ پاکستان جاٶ وہاں تمہاری عزتیں تو محفوظ ہوں گی۔
مرزا نوشاد قبرستان میں کھڑا تھا۔ اس کا بیٹا کسی کی قبر کھود رہا تھا۔ لوگ اس کی طرف تاسف کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ سب کو علم ہوگیا تھا کہ اس کی بیٹی نے کیوں خود کشی کی ہے۔ وہ سب یہ بھی جانتے تھے کہ وہ کس طاقتور کی ہوس کا نشانہ بنی ہے لیکن سب خاموش تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہاں بولنا جرم ہے۔ آج مرزا نوشاد کی بیٹی قبر میں اتر رہی ہے تو کل آواز اٹھانے پر وہ اس کی جگہ پر کھڑے ہوں گے۔
کافی وقت گزر گیا۔ مرزا نوشاد خود بھی قبر میں اتر گیا۔ اس کا بیٹا قبریں کھودتا رہا یہاں تک کے اس کے بال بھی سفید ہوگئے۔ وہ گھر میں بیٹھا تھا۔ اس کی پانچ سالہ پوتی کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن کر ابدی نیند سوگئی تھی۔ اسے اپنا باپ مرزا نوشاد یاد آرہا تھا جو کہتا تھا کہ پاکستان میں ان کی عزتیں تو محفوظ ہوں گی۔ آج اس کا دل چارہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر بتائے کہ بابا! تم بھی غلط تھے۔ تمہارا باپ بھی غلط تھا۔ وہ کافر اتنے حیادار تو تھے کہ بچیوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ بابا تمہارے پاکستان میں تو یہ معصوم کلیاں بھی محفوظ نہیں۔ بابا یہ کیا ہوگیا۔ ہمارے تو اجداد کی قبروں کی نہ تو مٹی گیلی رہی اور نہ ہی ہماری عزتیں محفوظ رہیں۔