Salman Khudai Ki Yaad Mein
سلمان خدائی کی یاد میں
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
ساماں سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں
مورخہ نو مارچ کو بڑا سانحہ پیش آیا۔ ہمارا پیارا دوست ہم سے بچھڑ گیا۔
مرحوم بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں کریمنالوجی ڈیپارٹمنٹ میں بطور لیکچرار خدمات انجام دے رہے تھے۔ پی ایچ ڈی کی بہت خواہش تھی اور اسکے حصول کے قریب پہنچ چکے تھے۔ میری انکی یونیورسٹی اور شعبہ کریمنالوجی سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مرحوم کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی جائے۔ مجھے ازراہِ مذاق کہتے تھے کہ مجھے ڈاکٹریٹ کر لینے دو پھر تم لوگ میری صحیح عزت کیا کرو گے۔ ایک بات جو میں تب نہیں کہہ سکا کہ میرے دوست سلمان خدائی، آپ جیسے انمول، مخلص اور بے لوث دوست کی کون بد قسمت قدر نہ کرے۔
میاں صاحب سے بہت پرانا تعلق تھا۔ غالباً کچھ بیس سال سے کم یا زیادہ دوستی کا گزارا تھا۔ ہم اچھے برے وقت کے ساتھی تھے۔ جوں جوں معاشرہ تنزلی کی طرف گامزن ہوتا گیا میاں صاحب کا بے لوث خلوص بڑھتا گیا۔ میاں صاحب انتہائی باعزت، صاحب ثروت اور باوقار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد صاحب میاں حیات خدائی کہروڑ پکا کے چوٹی کے زمینداروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب انکی شخصیت میں صاف جھلکتا تھا۔
جب انٹر مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی، میرٹ اور داخلے کی دوڑ میں شامل ہو گئے تو ملنا جلنا کم ہو گیا۔ ظاہر ہے یہ ایسی ریس ہوتی ہے کہ آپ نہ بھی اس میں شامل ہونا چاہیں تو بھی زمانہ اور لوگ شاملِ محفل کر دیتے ہیں اور آپ نہ جانتے ہوئے بھی سر پٹ دوڑ لگا دیتے ہیں۔ گویا ڈگری حاصل کرنے کی نہیں، عزت پانے کی ریس لگی ہو۔ پڑھائی کے سلسلے میں اسلام آباد شفٹ ہو گیا تو ملاقات کا سلسلہ کم ہو گیا۔
اس دوران جب بھی میاں صاحب سے گاہے بگاہے ملنے کا موقع ملتا رہا تو انجانے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ راقم کی شخصیت بیکن ہاؤس اسکول کے مخصوص ماحول اور تربیت کی عکاسی کرتی تھی۔ نہ زیادہ بات چیت کرنی اور نہ زیادہ لوگوں سے گھلنا ملنا۔ مگر سلمان خدائی سے دوستی کے بعد لوگوں سے بات کرنے کا سلیقہ بھی آیا اور بعد میں اسی وجہ سے مارکیٹنگ سیلز اور پبلک ڈیلنگ میں تھوڑا بہت نام کما سکا۔ میں نے اس سال والدہ مرحومہ کے گزر جانے کے بعد کافی وقت میاں صاحب کے ساتھ گزارا۔ ان کو بہت بار احتراماً عرض کیا کہ جو تھوڑی بہت کامیابی سمیٹنے میں کامیاب ہوا ہوں اس میں آپکی صحبت کا بڑا ہاتھ ہے لیکن میاں صاحب نے یہ کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے سے صاف انکاری رہے۔
میاں صاحب بے شمار قدرتی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ ہم جو قابلیت اور استعداد بہت محنت کر کے حاصل کرتے میاں صاحب اس صلاحیت کے قدرتی طور پر مالک تھے۔ مثلاً ہم نے سوچا کہ سیلز مارکیٹنگ کے کاروبار میں لوگوں سے ملنساری اور عاجزی سے ملنا چاہیے کہ لوگ آپکی بات کو اہمیت دیں۔ میاں صاحب اس صلاحیت میں یکتا تھے۔ دوست سلمان خدائی پر جان نچھاور کرتے۔ انکا حلقہ اربابِ بہت وسیع تھا۔ ملتان میں شاید ہی کوئی ایسی دوستوں کی محفل ہو جہاں انکا ذکر محبت سے نہ کیا جائے۔
جنازے پر مرے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے۔۔
روزگار کے سلسلے میں میرے وطن سے چلے جانے پر شدید ناراض ہوئے۔ مجھے کافی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کی دولت دی ہے انکے قریب رہو۔ انکی خدمت کرو۔ لالچ نہ کرو۔ لیکن میں میاں صاحب کو یہی کہتا تھا کہ آپ صاحب ثروت ہیں، صاحب مال ہیں اور ہماری جدوجہد کو نہیں محسوس کر سکتے۔ والدہ مرحومہ کی وفات کے بعد ان کو میں نے خود یاد کروایا کہ میاں صاحب بڑا نقصان کروا بیٹھا آپ کہتے تھے کہ والدہ مرحومہ کو میری ضرورت ہے۔ اور میں دنیاوی کامیابیاں سمیٹنے والدین سے دور چلا گیا۔ میاں صاحب نے غالباً میرا دل رکھنے کو مسکراتے ہوئے کہا کہ نہیں یار شاید تم ٹھیک تھے اور میں غلط تھا کہ تمہیں اپنے والد کا بوجھ ہلکا کرنا چاہیے۔
جب سے تو نے ہلکی ہلکی باتیں کیں
یار طبیعت بھاری بھاری رہتی ہے
پاؤں کمر تک دھنس جاتے ہیں دھرتی میں
ہاتھ پسارے جب خودداری رہتی ہے
وہ منزل پر اکثر دیر سے پہنچے ہیں
جن لوگوں کے پاس سواری رہتی ہے۔۔
میاں صاحب کی ایک بڑی خوبی انکا مختلف مکتبہ فکر کے ساتھ مکمل یکسانیت کے ساتھ دوستی تھی۔ میرے بڑے بھائی، کزن اور انکل کے ساتھ ایک جیسی دوستی تھی۔ میرے ساتھ ناراض ہوتے ہوئے بھی میرے کسی بھی دوست یا رشتے دار کے کام آتے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔۔
اس بار والدہ مرحومہ کے انتقال کے بعد کافی وقت پاکستان گزارا۔ مرحوم کے ساتھ ایک دو وعدے بھی ہؤے۔ ایک وعدہ انکی شادی کا تھا۔ دوسرا وعدہ میں ضرور پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں نے خاص طور پر التجا کی کہ آب خدا نے آپکو دولت عزت اور احترام سے نوازا ہے۔ آپکو شادی کر لینی چاہیے۔ مرحوم نے گزشتہ برسوں کی برعکس پہلی بار رضامندی ظاہر کی کہ تمہارے پاکستان واپس آنے تک شادی فائنل ہو جائے گی۔ مجھے کافی خوشگوار حیرت ہوئی کہ اس بار انہوں نے بات ٹالی نہیں۔
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا۔۔
ہم ہر بار کسی کی موت پر ہی کیوں رنجیدہ ہوتے ہیں؟ کیا انسانوں کی قدر انکے جانے کے بعد ہی ہوتی ہے؟ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی قدر جانیے نہ جانے کب کس کا بلاوہ آ جائے۔ مخلص دوستوں اور انسانوں کی قدر کیجئے ایسے زمانے میں بھی آگر کوئی آپ سے مخلص ہے تو یقین جانیے آپ بہت خوش قسمت ہیں۔ ہمارے مرحوم دوست سلمان خدائی کی مغفرت کی دعا کی درخواست ہے۔