Hua Hai Tujh Se Bicharne Ke Baad Ye Maloom
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی۔۔ (احمد فراز)
آج سے ٹھیک چار ماہ قبل والدہ مرحومہ نے آخری بار روایتی انداز سے رعب دار لہجے میں گلہ کیا تھا۔ ہمیشہ سے سنتے اور مانتے آئے ہیں کہ والدین کے شکوے میں انکا پیار چھپا ہوتا ہے۔ اس دن کے بعد میں اس خوش نصیبی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکا تھا۔
ایک دن قبل انکو مختار شیخ ہسپتال کی ایمرجنسی میں انتہائی تکلیف کے عالم میں داخل کروانا پڑا تھا۔ انکی بتدریج بگڑتی صحت واضح طور پر آنے والے سانحہ کا پتہ دے رہی تھی۔ اپنے آپ کو پکا مسلمان سمجھتے ہوئے مجھے قوی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں اور کیسے، انکا کینسر جیسے جیسے بڑھتا گیا مجھ میں حوصلہ بھی آتا گیا۔ انکی بیماری سے لڑنے کا بھی اور انکی بیماری کے سنگین نتائج کو سب سے چھپائے رکھنے کا بھی۔ میں جانتا ہوں کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ناامیدی اور مایوسی ہے۔ اس لیے مایوسی کفر قرار دی گئی ہے۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ساری عمر بلند حوصلہ اور بہادری سے گزارنے والی شخصیت کو ٹوٹتا ہوا دیکھوں۔
پانچ اگست کو انکو گلہ یہ تھا کہ میں نے رات انکے پاس کیوں نہیں گزاری۔ بے شک یہ انتہائی نگہداشت کا وارڈ تھا اور چاہے یہاں مریض کے ساتھ کسی کو وقت گزارنے کی اجازت نہیں تھی۔ تب بھی ان کا گلہ جائز محسوس ہوا کہ مجھے گھر جانے کی ایسی بھی کیا جلدی تھی۔ آج کے دن ہی ان کا آپریشن بھی تھا۔
ساتھ والے بستر پر لیٹی مریضہ نے پوچھا کہ آپ میں سے فہد صاحب کون ہیں۔ میں نے ہمت جمع کر کے بتایا کہ میں فہد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ساری رات آپکا نام پکارتی رہیں۔ نرس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی کہ جب بھی دوائی دینے کی کوشش کرتے تو کہتی تھیں کہ پہلے فہد کو بلاؤ۔ وہ پہلے دوائی دیکھے گا۔ پہلے بہت شرمندگی محسوس ہوئی پھر احساس کی جگہ بے بسی نے لے لی۔ میں کیا کر سکتا ہوں؟ کیا کسی اور ڈاکٹر سے مشورہ کروں؟ کہیں میرے اندر سستی اور ناامیدی تو غالب نہیں آ گئی؟
بے بسی کا احساس آج بھی اس شدت سے قائم ہے۔ بے شک ہم بے بس ہیں۔ یہ بھی قابلِ بیان ہے کہ انسان اپنی تکلیف ہنس کھیل کر برداشت کر لیتا ہے لیکن کسی بھی پیارے کی تکلیف برداشت سے باہر ہے۔
اس بے بسی کے اندر جہاں شدید کرب چھپا ہے کہ میں غالباً انکی تکلیف کا مداوا نہ کر سکا غالباً وقت پر علاج نہیں کروا سکا۔ اپنا فرض ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کر سکا۔۔ وہاں یہ فخر بھی ہے کہ آخری وقت تک انکو یہ یقین رہا کہ میں غالباً کوئی بہت ذہین، فرمانبردار اور پڑھا قابل شخص ہوں انکا فرمانبرداری والا مان ایسا برقرار رہا کہ میرے سے آخری بات بھی انہوں نے مکمل حاکمانہ حثیت سے کی۔ انکا یہ آخری وقت کا مان میرے لیے سرمایہ حیات ہے۔ انکی بیماری کے دوران میں نے بیشتر اوقات اپنی امید ریزہ ریزہ ہوتی محسوس کی لیکن کہیں نہ کہیں یہ بھی جواب آتا رہا کہ شاید تجھے اسی وقت کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ والدین کی موت انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور شاید انسان اس صدمے سے کبھی بھی نکل نہیں پاتا۔ ہاں برداشت کرنا اور صبر کرنا ضرور سیکھ لیتا ہے۔
جن کے والدین حیات ہیں انکی قدر کیجیۓ اور جن کے والدین رخصت ہو گئے انکی مغفرت کی دعا کریں۔