Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Fahad Sadiq
  4. Beroon e Mulk Muqeem Pakistani Ki Ruedad (1)

Beroon e Mulk Muqeem Pakistani Ki Ruedad (1)

بیرون ملک مقیم پاکستانی کی روئداد (1)

اس بار کالم لکھنے میں کافی تاخیر ہوگئی۔ مجبوراً وقت کی رفتار کے ساتھ چلنا پڑا اور نتیجتاً اپنے لئے وقت نکالنا یا اپنے شوق، قلم کاری یا، تحریر نویسی کے لیے وقت نکالنا محال ہوگیا۔

پچھلے کچھ عرصے سے تارکین وطن کافی خبروں میں ہیں۔ کسی جماعت کو انکے ووٹ چاہیے، کسی جماعت کو انکے ووٹ نہیں چاہیئے۔ لیکن ترسیلات زر ساری سیاسی جماعتوں کو چاہیے۔ اس بحث میں بہت سے الفاظ کے جادوگر کبھی وطن چھوڑ کر جانے والوں کو برا بنا دیتے ہیں کبھی انکی ذہنی علمی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہیں، کبھی انکی ملک کے ساتھ وفاداری پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ لوگ سچ اس لیے نہ لکھتے ہوں کہ انکو حقیقت کا علم نہ ہو، لیکن اکثر لوگ ایسا خوامخواہ کی نفرت میں لکھ دیتے ہیں۔

جنوری 22 میں پاکستان سے واپس بیرونِ ملک افریقہ کا سفر کیا، آخر تو واپس لوٹ کر جانا تھا۔ عملی زندگی کے 11، 12 سالوں میں پہلی بار اتنی دیر پاکستان رکا تھا۔ ورنہ ہر بار پاکستان چھٹیوں کے لیے آنا، اور یہاں سے تازہ دم ہو کر پھر سے ترقی اور کامیابی حاصل کرنے کی امید لگائے واپس چلے جانا۔ مجھے ہمیشہ سے اپنا وطن، اپنا شہر ملتان پسند تھا لیکن اس حقیقت کا بھی ادراک تھا کہ ہمارے شعبے فارماسسٹ کے لیے پاکستان میں ترقی کرنے کے مواقع محدود ہیں۔ ہم جیسے لوگ بھی سرایکی میں کہیں تو جھلے ہوتے ہیں، صرف ترقی کی آس امید پر اپنے ہنر، صلاحیت اور علم کا سودا کرنے کو تیار۔

مجھے ترقی کا بہت لالچ (شوق سے کچھ زیادہ) تھا۔ ایسے میں ہر وقت یہی خیال رہتا کہ کیسے یہ پہیا جلدی سے اپنا چکر پورا کر لے اور پھر واپسی ہو جائے۔ لیکن یہ کہانی اتنی بھی سادہ نہیں ہوتی۔ ہم جو باہر کی دنیا چنتے ہیں، ہمارا مقصد کام اور جائز آمدن ہوتی ہے، لیکن اس دنیا کے بھی اپنے اصول و ضوابط اور شرائط ہوتی ہیں۔ اس دنیا میں دھوکے، جھوٹ، مکرو فریب، زخم، سب سے گزرنے کے بعد کہیں جا کر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ آپ لاکھ کمبل سے جان چھڑانے کی کوشش کریں لیکن نہیں چھوٹتی۔ کاش کہ انسانوں کی دنیا میں درد دل بھی شامل ہو جائے۔ لیکن ہم ان سب کو چھپا کر مسکراتے رہتے ہیں کہ آخر آمدن سے ہمارے پیارے آسودہ حال رہتے ہیں۔

خیر اس بار پاکستان میں چھٹی لمبی ہونے کی وجہ عرض کرتا ہوں، روٹین کی چھٹی گزارنے 3 مئی 21 کو پاکستان پہنچا۔ فلائیٹ لاہور لینڈ ہوئی باہر نکلنے پر شدید گرمی کا احساس ہوا لیکن اس احساس کو بھی خوشگواری سے محسوس کیا آخر اپنا ملک اپنی زمین۔۔ ملتان کو سفر شروع کیا ساتھ بچوں کو دادا دادی اور اس ملک کی باتیں بتانی شروع کر دیں۔

ملتان پہنچنے پر، گھر داخل ہوا تو والدہ روایتی انداز میں گھر سے باہر موجود نہیں تھیں۔ میں نے سوچا گرمی ہے اس وجہ سے شاید اندر ہی ہیں۔ اندر گیا تو وہ کرسی پر بیٹھیں تھیں، دیکھ کر والہانہ انداز میں اٹھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں اپنے مخصوص انداز میں بہت نارمل انداز میں گلے لگ گیا۔ جزباتی اس لیے کبھی نہیں ہوتا تھا کہ ہمارے آتے اور واپس جاتے، ویسے ہی انکے آنسو روکے نہیں رکا کرتے تھے۔ مجھے اس بار انکی سرخی مائل رنگت پیلی اور سفید لگی۔ چند دن گزارے اور مجھے لگنے لگا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے غالباً انکی صحت ٹھیک نہیں۔ بڑے بھائی نے ٹیلی فون پر کافی بار امی کی صحت کا ذکر کیا لیکن ہر بار والدہ مرحومہ نے اس موضوع کو ٹال مٹول کر دینا۔ اب سامنے دیکھنے پر مجھے انکی صحت ٹھیک نہیں لگی؟

مسلسل بلڈ ٹیسٹوں سے، ڈاکٹروں کے مشورے، بیشمار طرح کے سکین، تین ماہ کے بعد والدہ 9 اگست کو اس دارفانی سے رخصت ہوگئیں۔ مجھے ہر لمحہ یہ پچھتاوا مزید گہرا ہوتا جاتا رہا کہ اگر میں وقت پر آ جاتا تو ان کو اس تکلیف سے بچا سکتا۔ جتنی آسانی سے اوپر تین سطروں میں یہ بات لکھ دی ہے لیکن ایک ایک سیکنڈ کس طرح امید بنتی بگڑتی ٹوٹتی رہی ہے یہ ناقابلِ فراموش وقت ہے۔ کینسر نہ صرف مہلک بلکہ انتہائی تکلیف دہ بیماری ہوتی ہے۔

کاروبار زندگی کب تک رک سکتا ہے ہاں، بے شک والدہ مرحومہ کی محرومی ایک انمٹ اثر چھوڑ جاتی ہے۔ یہ سفر مشکل اس لیے تھا کہ اس بار گھر کے باہر موجود دعائیں دیتی، آنسو بہاتی والدہ کی جگہ خالی سڑک تھی۔ اور اس پر مشکل یہ کہ جاتے ہوئے مرحومہ والدہ کو گاؤں میں موجود قبرستان میں فاتحہ بھی کرنی تھی۔

پچھلے سالوں میں جب بھی کسی نے سر کے بالوں میں آنے والی شدید قلّت کا طعنہ دیا یا پھر داڑھی کے بالوں میں اترتی سفیدی کی طرف اشارہ کیا۔۔ خدا گواہ ہے کہ کبھی خود کو عمر رسیدہ نہیں سمجھا۔ ماں باپ دونوں الحمدللہ حیات تھے۔ ہمیشہ ایسا لگا جیسے لوگ ازراہ مذاق کہہ رہے ہیں۔ لیکن اس بار کسی کے کہنے کے بغیر ہی خود کو بوڑھا اور نڈھال محسوس کیا۔ اچانک سے روایتی زمہ داریاں بوجھ لگنے لگی۔ کندھے بھاری اور دماغ خالی خالی لگنے لگا۔ پہلے چھٹیوں سے واپس جاتے مرحومہ والدہ نے ہمیشہ گلہ کرنا کہ کبھی بھی زیادہ عرصے کے لیے نہیں رہتے ایک ہفتہ سیٹ آگے کروا لو۔ میرا زیادہ تر جواب یہی ہوتا تھا کہ امی بس کچھ سال اور۔۔

میں ہمیشہ بے چینی سے وقت گزرنے کا انتظار کرتا تھا کہ کب اس قابل ہوں گا کہ وطن واپسی پر والدین کے ساتھ بچوں کو بڑا ہوتا دیکھوں گا۔ لیکن جس طرح میری بے چینی بڑھتی جاتی، دنیا کو اس جلدی کی وجہ نہ سمجھ آتی۔۔ وہ کہتی تھیں کہ پتہ نہیں مجھے آخری وقت دیکھ بھی سکو گے یا نہیں۔ پھر وہ بے بسی سے ہمیں رخصت کر دیتیں۔ انکی باتیں مجھے کچھ دنوں تک ضرور احساس دلایا کرتی کہ وقت رخصت پوچھ کر نہیں آتا۔۔ پھر دنیاوی دوڑ میں شامل ہو جاتا اور واپسی سال ڈیڑھ سال بعد ہوتی۔

اس بار وہ گھر پر موجود نہیں تھیں۔ میرا احساس جرم قبرستان جاتے جاتے شدید ہوتا گیا۔ مجھے لگنے لگا کہ میں نے اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے کافی دور نکل گیا اور اپنی عزیز ترین ہستی کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع کھو دیا۔ اس کاروبار زندگی میں کامیابی کے بدلے بہت بڑی قربانی دینی پڑی۔ اب یہ گھاٹے کا سودا لگنے لگا تھا۔ پلڑے کے ایک طرف جہاں دنیاوی کامیابیاں ملیں لیکن دوسری طرف والدہ کے ساتھ وقت نہ گزار سکنے کا پچھتاوا۔۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Aaj Soop Nahi Peena?

By Syed Mehdi Bukhari