Auraton Ka Aalmi Din Aur Walida Marhooma
عورتوں کا عالمی دن اور والدہ مرحومہ
یہ ایک تلخ حقیقت ہے، بیشتر اوقات انسان کو والدین کی قدر و منزلت ان کے جانے کے بعد ہوتی ہے۔ غالباً تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے انحراف بھی ممکن نہیں کہ والدین اور بالخصوص والدہ میرٹ سے ہٹ کر اپنے بچوں کو پیار کرتے ہیں، اولاد کی طرف سے کمی بیشی کے باوجود ان کی ضروریات کا آخری دم تک خیال رکھتے ہیں۔ والدہ کا رشتہ اس حوالے سے منفرد ہے کہ دنیاوی ریس میں نسبتاً پیچھے رہ جانے والی اولاد کو ذیادہ پیار اور شفقت سے پیش آتی ہیں۔ والد کے نزدیک اولاد کا لائق، قابل اور محنتی ہونا ذیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر راقم نے میرٹ کا لفظ استعمال کیا۔
کیونکہ راقم نو اگست 2021کو دنیا کی اس عظیم ہستی سے محروم ہو چکا ہے، اس لیے والدہ مرحومہ سے جڑی یادیں ذیادہ شدت اور گہرائی سے دل و دماغ کا گھیرا ڈالے رکھتی ہیں۔ ان کی وفات کے ابتدائی دنوں کی نسبت اب ان کی یادیں ایک ٹرانس کی کیفیت میں لے جاتی ہیں۔ ان کی وفات کے بعد کافی دن ایسے گزرے کہ گویا وقت رک سا گیا ہو۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم سب کو اس دارفانی سے رخصت ہونا ہے۔ اسی بنیاد پر دکھ کا احساس ضرور کم ہو جاتا ہے لیکن ایک شفیق ہستی کے گزر جانے سے، جس سے نہ صرف اپنی کامیابیاں بلکہ ناکامیاں اور مایوسیاں شیئر کرتا تھا، محرومی کا احساس ہر کامیابی اور ناکامی پر بدرجہ اتم موجود رہتا ہے۔
پہلے پانچ سال فارمیسی کی ڈگری کے سلسلے میں گھر سے دور رہا، پھر سلسلہ روزگار کے لیے گیارہ سال والدہ مرحومہ سے دور رہا۔ سولہ سال کا عرصہ کافی طویل ہوتا ہے۔ میں ان سے ہر سال چھٹی سے واپسی پر وعدہ کرتا کہ اب تھوڑے ہی عرصے میں واپس آ جائیں گے۔ وہ غالباً اتنا انتظار نہ کر سکیں۔ یہ کوئی نہیں سمجھ سکا کہ مجھے وطن واپسی کی کیوں جلدی تھی۔ والدہ مرحومہ سے وعدہ نبھانے کی جلدی تھی۔ اب شاید یہ سوال بھی کوئی نہیں کرے گا کیونکہ جس کی وجہ سے جلدی تھی وہ ابدی نیند سو گئی۔
تارکینِ وطن کے مسائل بھی عجیب ہوتے ہیں۔ ذیادہ تر لوگ تو سمجھ نہیں پاتے کہ مالی آسودگی حاصل کرنے کے لیے ہم کس پل صراط سے گزرتے ہیں اور گھروں سے دور رہ کر کیا قربانی دیتے ہیں؟ والدین سے دور، اپنی مٹی سے دور، سال ہا سال اسی امید پر گزار دیتے ہیں کہ ایک دن واپس جائیں گے اور ہمارے اپنے ہمارے پیارے مالی فکر سے آزاد رہیں گے۔ لیکن جب وہ دن آتا ہے تو والدہ مرحومہ کے جنازے کو کندھا دینے جتنی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ حوصلہ جو بڑے بڑے طوفانوں سے ٹکرا جانے پر نہیں ڈگمگاتا لیکن والدہ کے جنازے کو کندھا دینے سے لرز جاتا ہے۔
اکثر اوقات ہمیں سیاسی وابستگی کے طعنے ملتے ہیں کہ روپے میں کماؤ پھر حکومت کی تعریف کرو۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ہم جیسے لوگ موجودہ دور حکومت میں بیرون ملک نہیں آئے۔ اگر کچھ ہے تو اس حکومت میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو عزت اور شناخت ملی۔ دوستوں یاروں سے طعنے ضرور ملتے ہیں۔ لیکن جس نے پردیس کاٹا وہ ان احساسات، محرومی اور قربانی کی داستان کو سمجھتا ہے۔ والدہ مرحومہ کی یاد بھی ایک سرمایہ ہے بعض اوقات اکیلا بیٹھا بھی مسکرا دیتا ہوں۔ لیکن کچھ تلخ حقیقتوں سے بھی روشناس کرا دیا۔
ان کی وفات نے بہت سارے پردے چاک کر دیے۔ اچانک ایسا محسوس ہوا کہ گرمی کی بھرپور دوپہر میں سورج کی تمازت پورے آب و تاب سے چمک دکھانے لگ گئی۔ مجھے یہ حیرانگی رہی کہ بیماری کے شروع ہونے سے لے کر میرے وطن پہنچے تک، انہوں نے مجھے صحت کے بارے میں بتایا تک نہیں۔ یہ گلہ رہے گا کہ میں ان کی وہ خدمت نہیں کر سکا جو میرے لیے تسلی کا باعث بنتی۔ مجھے اکثر گلہ کرتی تھیں کہ پتا نہیں فہد میرے بڑھاپے میں مجھے کون سنبھالے گا؟ تم بہت دور رہتے ہو۔ میں ان کو تسلی دیتا کہ امی ہمیں کس دن کے لیے پڑھایا لکھایا اور کامیاب کیا؟
میں آپکے پاس ہوں گا جب بھی ضرورت ہوگی۔ ہاں ڈر ضرور لگتا رہتا تھا جب بھی کبھی اوقات کار سے ہٹ کر فون بجتااور سچ ہے کہ ربّ العزت نے مجھے موقع دیا کہ سو کے قریب دن انکے علاج کے دوران انکے ساتھ رہا۔ کھل کر باتیں کیں، جو کبھی نہیں کہہ سکا وہ بھی کہنے کی کوشش کی۔ یہ الجھن ضرور رہی کہ ان کو ان کی بیماری، یعنی کینسر کے بارے بتایا جائے یا نہیں۔ وہ گلے لگا کر رو دیتی تھی مگر میں بھی ارادے کا پکا تھا کبھی ان کے سامنے آنکھیں اشک بار نہیں ہوئیں۔ والدہ مرحومہ نے بے شمار دنیاوی دشواریوں کے باوجود بہت با صبر اور حوصلہ مند زندگی گزاری تھی۔
ان کو ایسے رخصت ہوتے دیکھا جائے کہ مجبوری اور لاچارگی نہ ہو۔ شاید اس جنریشن کے لوگوں کے حوصلے اور ہمت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ان لوگوں نے نیا نیا پاکستان دیکھا تھا اور کسی بھی قسم کے چیلنج کو مشکل نہیں سمجھتے تھے۔ جب ان کی بیماری کا اندیشہ ہوا تو ایک خیال آیا کہ میں نے ساری عمر ان کی دل بھر کے خدمت نہیں کی۔ شاید اللّٰہ تعالیٰ موقع دے رہا ہے کہ اپنی والدہ کو خوش کر دوں۔ بھائی بہن کی خوشی میں والدہ کی خوشی پنہا تھی۔ باقی فرائض انجام دیتے دیتے کافی طویل عرصہ گزر گیا۔ یہی سوچتا رہا کہ اب ان کی بھرپور خدمت کروں گا۔
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا ان کی صحت بتدریج گرتی گئی۔ اکثر اکیلا بیٹھ کر دل کا بوجھ ہلکا کرتا کہ آنسو گرتے امی دیکھ نہ لیں اور پھر سے کسی اور ڈاکٹر کی تلاش کرتا کہ علاج کی کوئی صورت نکل آئے۔ غالباً میں نے دیر کر دی تھی۔ بقول منیر نیازی
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔
یہ یادیں قلم کی زینت کرنے کا مقصد، جہاں غم کو ہلکا کرنا ہے یا احساس ندامت کو کم کرنا ہے وہاں عورتوں کے اس دن کی مناسبت سے ماؤں کے لازوال پیار کی داستان کو بیان کرنا مقصود تھا۔ اکثر ہم اپنے سب سے پیارے رشتوں کو فار گرانٹٹھ لے لیتے ہیں اور احساس تب ہوتا ہے جب اللّٰہ تعالیٰ یہ امانت واپس لے لیتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ والدین کو تادیر قائم و دائم رکھے اور ہم سب کو ان کی بھرپور خدمت کا جذبہ عطا فرمائے۔