1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Danish Hanif/
  4. Zara Sochiye

Zara Sochiye

ذرا سوچۓ

آپ اپنی فیملی کے ساتھ خریداری کرنے کسی اچھے شاپنگ مال جاتے ہیں۔ جہاں ہر دوکان پر اعلانیہ یا غیر اعلانیہ، ایک دام واحد کلام، یا فکسڈ پرائس، کا بورڈ لگا ہوتا ہے۔ آپ اپنی یا عموماََ فیملی کی مرضی کی خریداری کرتے ہیں، اور پوری قیمت بغیر کسی بحث یا بارگین مسکراتے ہوئے (دل سے نہ سہی) ادا کرتے ہیں، اور سلام کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔

بعد از شاپنگ، فیملی کی فرمائش پر آپ کسی اچھے ریستوران میں جاتے ہیں، آرڈر کرتے ہیں، بمعہ ٹیکس قیمت ادا کرتے ہیں، اور اپنی حیثیت کے مطابق خاموشی سے کچھ ٹپ عطا کر کے خوشی خوشی واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ یقینََ شاپنگ مال کی وہ دکانیں جہاں سے آپ نے خریداری کی ہے، یا وہ ریستوران جہاں سےآپ نے کھانا کھایا ہے۔ ان کے مالکان مالی لحاظ سے بیشک کافی مضبوط نہ ہوں مگر یقینََ روز کما کر روز کھانے والی صورتحال نہیں ہو گی۔

مگر وہاں آپ نے قیمتوں کی ادائیگی میں نا چوں کی اور نہ چراں بلکہ دلکش مسکراہٹ بھی سجا کر رکھی منظر بدلتا ہے، یہی آپ اور آپ کی فیملی کسی سستے بازار میں کسی سفید پوش چھابڑی والے سے خریداری کرتے ہیں۔ وہاں آپ جم کر سودے بازی کرتے ہیں، تیوری پر بل بھی چڑھا ليتے ہیں، اور مرضی کے دام پر بات نہ بننے پر، آگے سےخرید لیں گے، کی دھمکی بھی لگا دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

آپ ایسا اس لۓ نہیں کرتے کہ آپ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک تنخواہ دار انسان ہیں، کیوں یہ آپ ہی تھے جو شاپنگ مال اور ریستوران میں ہنسی خوشی (ظاہری ہی سہی) پوری قیمت بغیر سودا بازی کے ادا کر دیتے ہیں۔ آپ ایسا اس لۓ کرتے ہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ اس چھابڑی والے کی مجبوری ہے کہ وہ آج جو کماۓ گا تو وہ اور اس کے گھر والے اپنے پیٹ کا دوزخ بھر سکیں گے۔

پھر اس نے جس جگہ چھابڑی لگائی ہے، اس جگہ کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے، اپنی چھابڑی قائم رکھنے کے لۓ، کچھ حضرات کی مٹھی بھی گرم کرنی ہوتی ہے۔ اپنی اس ہی مجبوری کی وجہ سے وہ آپ کو بہت کم منافع پر فروخت کر دیتا ہے، اور آپ فخر سے سینہ چوڑا کر کے کہتے ہیں کہ آپ نے ڈٹ کے سودے بازی کری اور کم قیمت پہ خریداری کر لی، بالکل کر لی، مگر کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر۔

ایک اور منظر دیکھتے ہیں، عیدین کی نماز کے بعد آپ کے بچے غبارے خریدنے کی ضد کرتے ہیں، آپ عیدگاہ کے باہر غبارے بیچنے والے بچے سے غبارے خریدتے ہیں، اور اس سے بھی سودے بازی کرتے ہیں، اور یہ کہتے ہیں کہ مہنگے بیچ رہا ہے، اور عید کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یاد رہے آپ وہی ہیں جو رمضان اور عید کی شاپنگ کے دوران، برانڈڈ اسٹورز میں یہ، ناجائز، فائدہ مسکرا مسکرا کر پہنچا چکے ہوتے ہیں۔

مگر چوں کہ وہاں آپ کومعلوم ہوتا ہے، کہ بارگین کی صورت میں آپ کو واپسی کا راستہ دکھا دیا جاۓ گا اس لۓ وہاں آپ کی صرف جیب ہلکی ہوتی ہے مسکراہٹ نہیں۔ عید کی چاند رات آپ اپنی زوجہ کو مہندی لگانے کے لۓ بازار جاتے ہیں، جہاں بچیاں پوری پوری رات جاگ کر مہندی لگاتی ہیں، کہ کچھ روپے اکٹھے کر سکیں، اور شاید عام دنوں سے سو، دو سو روپے زیادہ لے لیتی ہیں۔

مگر وہاں بھی آپ کو مہنگائی اور لوٹ مار کا خیال آ جاتا ہے اور آپ کی زوجہ ان بچیوں سے سو پچاس روپے کے لۓ اچھی خاصی بحث کر لیتی ہیں، اور ان کی مجبوری کا فائدہ بھی اٹھا لیتی ہیں۔ ہاں یہی زوجہ محترمہ آن لائن شاپنگ کے نام پر اچھی خاصی رقم خرچ کر چکی ہوتی ہیں اور یہ کہتی ہوئی پائی جاتی ہیں کہ بہت مناسب دام پر خریداری کر لی۔

ذرا سوچئے، آپ کپڑوں، جوتوں، جیولری اور کھانے پینے پر ہزاروں روپے خرچ کر لیتے ہیں، اور اس کا راست یا بالواسطہ فائدہ ان لوگوں کو پہنچ رہا ہوتا ہے، جنہیں آپ کے خریداری کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وہاں خریداری کرنے سے آپ کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔ تو آپ چھابڑی فروشوں، غبارے بیچنے والے بچوں، سڑک کنارے لگے ٹھیلے والوں اور مہندی لگانے والی بچیوں سے الجھ کر سو، دو سو روپے بچا کر کون سا، جیک ما، بن جائیں گے؟

ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ ان لوگوں سے زیادہ دام میں چیزیں لیں تاکہ انہیں تھوڑی آسانی میسر ہو اور وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ ایک اور بات، ضروری نہیں کہ ضرورت مند صرف وہی ہو جو زبان سے مانگے، بہت سے ضرورت مند اپنی خودداری کی وجہ سے اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتے مگر آپ کی مدد کے منتظر ضرور رہتے ہیں۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ان سے کچھ خرید کر مانگی گئ قیمت سے کچھ زیادہ ادا کر دیں۔

ایسا کرنے سے ان کی سفید پوشی کا بھرم بھی رہ جاۓ گا اور آپ کی نیکیوں میں اضافہ بھی ہو جاۓ گا۔ یاد رہے آپ کی کی گئی مدد سے پوری دنیا کے سفید پوشوں کی زندگی نہیں بدلے گی مگر جس سفید پوش کی آپ مدد کریں گے اس کی زندگی میں خوشیوں کے چند پل ضرور آ جائیں گے ذرا سوچئے۔

Check Also

Sahafi Hona Itna Asaan Bhi Nahi

By Wusat Ullah Khan