Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Danish Hanif/
  4. Insaniyat Doob Chuki Hai

Insaniyat Doob Chuki Hai

انسانیت ڈوب چکی ہے‎‎

بالی ووڈ فلم "شعلے" ہم سب نے دیکھ رکھی ہے۔ جہاں یہ فلم اداکاروں کی لازوال اداکاری کی وجہ سے مشہور ہوئی، وہیں اس کے کئی ڈائلاگز بھی مشہور ہوۓ۔ ان میں سے ایک مشہور ڈائلاگ ایک نابینا بوڑھے باپ کا کردار ادا کرنے والے اداکار کا تھا، "دنیا میں سب سے وزنی بوجھ ایک باپ کے کاندھے پہ اولاد کے جنازے کا بوجھ ہوتا ہے"۔

اور یہ ایک حقیقت ہے، دنیا میں ہر پریشان انسان کو موٹیویٹ کیا جا سکتا ہے، زندگی کی طرف واپس لایا جا سکتا ہے لیکن ایک ماں یا باپ جس نے اپنی جوان اولاد کو کھو دیا ہو انہیں زندگی کی طرف لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوئی ماں یا باپ یہ سوچے گا بھی نہیں کہ اسے اپنی اولاد کے جنازے کو اٹھانا پڑے گا اور اللہ نہ کرے کہ کسی پہ ایسا وقت آۓ کہ جن ہاتھوں میں بچوں کو کھلایا ان ہاتھوں میں بچوں کی لاشیں اٹھانی پڑیں۔

اس سال مون سون کا سیزن اہلیان وطن کے لۓ نہایت دشوار ثابت ہوا، پورے ملک میں معمول سے کہیں زیادہ بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں نقصان بھی حد درجہ زیادہ ہوا، سینکڑوں لوگ جان سے گۓ جن میں ایک بڑی تعداد بچوں کی بھی تھی، ہزاروں مکان بہہ گۓ، فصلیں برباد ہو گئیں، بند ٹوٹ گۓ، ندی نالے بھر کر ابل پڑے، غرض ایک تباہی تھی جو اپنے نشان چھوڑ گئی۔ مگر یہ تباہی ہماری بے حسی بھی دکھا گئی۔

جس وقت باپ اپنے بچوں کی لاشیں پانی میں سے نکال رہے تھے ہم گال ٹیسٹ ہارنے کی وجوہات پہ بحث کر رہے تھے، جپ پورے پورے خاندان درختوں پہ محسور ہوۓ روٹی کو ترس رہے تھے، ہم الیکشن کمیشن کے فیصلے کی فکر میں مرے جا رہے تھے۔ جب لوگ ہاتھ جوڑ کر دہائیاں دے رہے تھے کہ ہمیں بچاؤ تو ہم پنجاب میں حکومت تبدیلی پہ یا شاد تھے یا غمزدہ تھے مگر ہم میں سے کسی کو ان معصوم بچوں کی، ان خاندانوں کی کوئی فکر نہ تھی، سوشل میڈیا پہ ان کی مدد کے لۓ کوئی "ٹرینڈ" نہیں بنا، کیونکہ "ٹرینڈ" تو ایک دوسرے کی سیاسی وابستگی پہ کیچڑ اچھالنے کے لۓ ہی بنتے ہیں، کسی کی جان بچانے کے لۓ نہیں۔

یہ بات درست ہے کہ ایسے حالات ميں متاثرین کی مدد کی ذمہ داری حکومت وقت پہ عائد ہوتی ہے جو کہ آج تک کسی حکومت نے ٹھیک طرح سے ادا نہیں کی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان سے کئ گنا کم نقصانات پہ وزیر استعفے دے دیتے ہیں اور ہمارے یہاں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے دست و گریباں تو نظر آتے ہیں مگر جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں نہ اپوزیشن نظر آتی ہے نہ حکومت نظر آتی ہے۔ تو پانی یا لہو میں ڈوبی لعشیں، بھوک، افلاس، تکلیف اور متوقع موت کا خوف۔

حکومت، اپوزیشن یا اداروں نے تو کچھ نہیں کیا، سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنا کون سا فرض ادا کیا ہے؟ ہمارے لۓ ڈوبتے بچوں اور ان کی لعشوں سے کہیں زیادہ اہم سازش اور مداخلت کی بحث تھی اور یہ کہ پاکستان کے سری لنکا بننے میں کیا کمی رہ گئ ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم کسی اداکارہ کے ناشتے کی تصویر کو تو ٹرینڈ بنا سکتے ہیں مگر معصوم بچوں کو بچانے کے لۓ ہم کوئی ٹرینڈ نہیں بنا سکے۔ لوگ درختوں پہ محسور ہیں اور ہم اس فکر میں ہیں کہ عالیہ بھٹ کے یہاں لڑکا ہو گا یا لڑکی؟

انسان ایک شہر میں ڈوب کے دوسرے شہروں کے دریاؤں، بیراجوں میں لعشوں کی صورت ملے اور ہم فارن فنڈنگ اور ممنوعہ فنڈنگ کے درمیان فرق بتانے کے لۓ گلے پھاڑتے رہے۔ مانا کہ ہمیں غلامی منظور نہیں، کرپشن کے ہم شدید مخالف ہیں، پنجاب میں ہوئی سیاسی تبدیلی پہ بحث بھی بہت ضروری ہے، ڈالر کا ریٹ، پٹرول کی قیمت، تجارتی خسارہ وغیرہ، یہ سب بہت ضروری ہیں۔

مگر یقین کریں سیلاب کے ریلے میں بہتی بچیوں کی آخری سانسوں کے دوران "رجیم چینج" کی بحث نہیں بچانے والے ہاتھوں کی ضرورت تھی، اپنے ہاتھوں میں نوجوان بچی کی لعش اٹھاۓ باپ کے دماغ میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں تدفین کے خرچ کی ٹینشن ہو گی۔ اپنے بچوں کو درخت پہ بٹھاۓ باپ کو آئی ایم ایف سے زیادہ روٹی کی ضرورت تھی جس سے وہ ان کا پیٹ بھر سکتا مگر وہ شاید بھول گیا تھا کہ یہاں انسانیت ڈوب نہیں رہی، ڈوب چکی ہے۔

Check Also

Shah e Iran Ke Mahallat

By Javed Chaudhry