1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Danish Hanif/
  4. Beta Bare Ho Kar Kya Bano Ge?

Beta Bare Ho Kar Kya Bano Ge?

بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟

بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ یہ سوال شاید ہم سب نے اپنے بچپن میں سن رکھا ہے، اس سوال کے جوابات جو ہم دیا کرتے تھے وہ بھی ہم جانتے ہیں، انجینئر، ڈاکٹر، پائلٹ، وکیل، استاد، آرمی آفیسر، بزنس مین وغیرہ وغیرہ۔ پھر ہم پڑھائی کی حوصلہ افزائی کے لۓ کچھ محاورے بھی سنتے تھے جس میں سب سے مشہور ہوتا تھا "پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، کھیلوگے کودو گے ہوگے خراب"۔ اور ہم نواب بننے کے شوق میں پڑھتے گۓ اور بالائی سطور میں بیان کردہ پیشوں میں سے ایک تو بن گۓ مگر نواب نہ بن سکے اور نہ نوابوں والی "عیاشی" پا سکے مگر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اچھا گزارہ ہو جاتا ہے۔

اس تمہید کا مقصد وہ سوال تھا جو آج کا ہمارا عنوان ہے اور یہ سوال ہم نے ایک نو عمر سے پوچھا جسے ہمارے حساب سے چھٹی یا ساتویں جماعت کے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہونا چاہۓ تھا مگر وہ اپنے ہاتھ میں اپنے چہرے سے بڑا فون لۓ کچھ ایسی شکلیں بنا رہا تھا کہ جیسے اسے "حاجت روائی" کی شدید ضرورت ہو۔ اس نے ہمارے سوال پر ہماری طرف حقارت سے دیکھا اور سوال کے جواب میں سوال ہی پوچھ لیا کہ انکل، پہلے تو یہ بتائیں کہ کچھ بننے کے لۓ بڑا ہونا ضروری ہے یہ آپ سے کس "بے مغز" نے کہا ہے؟

ہم اس کا سوال اور اس سے ذیادہ خود کو انکل سن کر پریشان ہو گۓ اور ذہن میں اپنی اور اس کی عمر کا فرق نکال کر خود کو اس کا انکل تسلیم کیا ہی تھا کہ اس نے اپنے سوال کا جواب بھی دے دیا اور بتایا کہ وہ ٹک ٹاکر بنے گا نہیں بلکہ بن چکا ہے اور اس کے اتنے فالوورز ہیں۔ ہم نے کہا کہ بیٹا ٹھیک ہے تم ٹک ٹاکر بن کر اپنی "تعمیری" صلاحیتوں سے اس ملک کی خدمت کر رہے ہو مگر تعلیم کے بارے میں کیا سوچا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ظالم نے ہمیں ایک دفعہ پھر انکل کہ کر ایک سوال داغ دیا کہ آپ کی تعلیم کتنی ہے؟ ہم نے بتایا کہ بیٹا ہم انجینئر ہیں۔ اس نے ہمیں ترس بھری نظروں سے دیکھا اور ہم سے ہماری کمائی پوچھی۔ ہم نے شرماتے ہوۓ بتا دی تو اس نے حیرت سے پوچھا کہ انکل ڈالر یا پاکستانی روپے؟ ہم نے گھبرا کر بتایا کہ پاکستانی روپیوں میں۔

پھر اس نے ہم سے ہمارے ڈیوٹی کے اوقات کار پوچھے اور جواب سن کر ہماری اوقات بتاتے ہوۓ اپنی کمائی بتا دی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر ایک اچھی بھلی تعداد اسے نہ صرف جانتی بلکہ سراہتی بھی ہے۔ دبی دبی سی آواز میں ہم نے تعلیم کی اہمیت بتانے کی کوشش کی تو اس نے غصے میں آ کر پوچھا کہ آپ کو کتنے لوگ جانتے ہیں؟

ہم نے دل میں سوچا کہ کبھی کبھی تو اپنے گھر والے بھی نہیں پہچانتے مگر بے عزتی کے ڈر سے ہم نے بڑھک لگا دی کہ ہمیں ہمارے دفتر کے تمام لوگ جانتے ہیں اور عزت بھی کرتے ہیں۔ اس نے ایک قہقہ بلند کیا اور کہا کہ اگلے مہینے اسے کئ دوسرے ٹک ٹاکرز کے ہمراہ ایک مشہور چینل نے مدعو کر رکھا ہے جس کے بعد اسے جو لوگ نہیں بھی جانتے وہ بھی جان جا ئیں گے اور اس کی کمائی کو بھی چار چاند لگ جائیں گے۔

اور اس کے بعد اس نے ہم سے کہا کہ ہم پہلے ہی اس کا کافی وقت ضائع کر چکے ہیں تو اب ہمیں تعلیم کی اہمیت کا لیکچر کسی اور کو دینا چاہئے سو ہم اس کا آٹو گراف اور اس کے ساتھ ایک سیلفی لے کر واپس آ گۓ کہ کل کو یہ اسٹار بن جاۓ گا تو ہم بھی یہ سیلفی لوگوں کو دکھا کر فخر کریں گے۔

اس مختصر سی نشست کے بعد ہم نے آج کے کھلاڑی، فلمی ہیروز، ٹک ٹاکرز، یو ٹیوبرز غرض تمام تر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی کمائی، شہرت، عزت اور مرتبے کے بارے میں سوچا تو ہمیں احساس ہوا کہ "پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب" والا محاورہ تو غلط تھا۔ کیوں کہ صحیح معنوں میں نواب تو لوگ کھیل کود کر یا ٹک ٹاکرز بن کر ہی بن رہے ہیں۔ پڑھنے لکھنے والوں کو تو کوئی جانتا تک نہیں ہے۔

یقین نہ آۓ تو ایک سوال آپ سے بھی۔ کتنے لوگ پروفیسر ذوالفقار بھٹہ کو جانتے ہیں؟ یہ وہ واحد پاکستانی میڈیکل سائنسدان ہیں جنہیں گزشتہ دنوں دنیا کے سو سب سے قابل سائنسدانوں میں شامل کیا گیا ہے اور بحیثیت پاکستانی یہ ہمارے لئے نہایت فخر کی بات ہے مگر افسوس کہ اس خبر کو اتنی ہی کوریج مل سکی جتنی کہ ایک عام روڈ ایکسیڈنٹ کو ملتی ہے کیوں کہ آج کل ہم ڈی چوک پر جمع ہونے والے لوگوں کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانے میں مصروف ہیں۔

آج ہم تعلیم کے میدان میں کہاں کھڑے ہیں اس کے لۓ اتنا جان لیں کے یو نیسیف کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد 8 سے 22 ملین ہے جو کہ پوری دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ یکساں نصاب تو دور کی بات، بین الصوبائی نصاب تک ایک نہیں ہے۔ ریسرچ کے نام پر "استاد گوگل" ہی رہ گیا ہے۔ دنیا کی ٹاپ رینکنگ یونیورسٹیوں میں پاکستان کا دور دور تک نام نہیں ہے اور ایسی گھٹن میں اگر پروفیسر ذوالفقار بھٹہ کی صورت میں کوئی ہوا کا خوشگوار جھونکا آتا ہے تو وہ ڈی چوک کی شیلنگ اور پودوں کی آگ کی نظر ہو جاتا ہے۔

یہیں سے قوموں کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے، جن ملکوں میں ٹک ٹاکرز کی زیادہ عزت ہوتی ہے وہاں کے بچے ٹک ٹاکرز تو بن سکتے ہیں پروفیسر ذوالفقار بھٹہ نہیں کیونکہ انہیں کوئی جانتا ہی نہیں اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ ہم انہیں جانیں کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارے بچے تعلیم کی طرف راغب ہوں گے، ہم ریسرچ کی طرف گامزن ہوں گے، ہم ایجادات کر سکیں گے۔

اپنی مصنوعات بنا سکیں گے، اپنا زر مبادلہ بڑھا سکیں گے، غیر ملکی قرضے سے نجات حاصل کر سکیں گے، آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر قیمتیں نہیں بڑھائیں گے، کشکول نہیں پھیلائیں گے، یوتھئے اور پٹواری کی لڑائی سے باہر نکل کر ملک کا سوچیں گے، اور یہ ہم نہیں چاہ سکتے کیونکہ ہمارے بچے ٹک ٹاکر بن نہیں رہے بن چکے ہیں۔

Check Also

Israel Ka Doobta Hua Bera

By Azam Ali