Taleemi Nisab Aur Muhazzab Qaum
تعلیمی نصاب اور مہذب قوم
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ عظیم اور مہذب قوم ایک دن میں نہیں بنتیں۔ اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور یہ وقت ایک دو سال پر مشتمل نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کےذہنوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی تربیت کی جاتی ہے۔ اور اس سب کے لئے باقاعدہ ایک سنجیدہ لیڈر شپ درکار ہوتی ہے جو ایسی پالیسیاں بنائے۔ عوام کی فلاح اور اس کے لئے ایسا ماحول بنائے جس میں لوگ معاشی طور پر مستحکم ہو کر آنے والی نسل کی بہتر تربیت کر سکیں۔ مگر بد قسمتی کہیں یا کچھ اور۔ بحر حال ہمارا آج کا موضوع ہر گز سیاسی نہیں۔
ایک عرصہ ہی بیت گیا سنتے کو کہ تعلیمی نصاب تمام تعلیمی اداروں میں یکساں ہونا چاہئے۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے تو اس معاملے پر مکمل ہم ورک بھی کر لیا ہے اور عنقریب اس کا اطلاق بھی ہو جائے گا۔ گو کہ سننے میں یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نصاب کیسا ہونا چاہئے۔ اس پے مختلف حلقوں کی جانب سے اختلاف پایا جا رہا ہے۔ اور ظاہر اختلاف ہوگا بھی اور یہ اختلاف اداروں کی جانب سے کم جبکہ عوام کی جانب سے زیادہ دیکھنے کو ملا۔ (خاص طور پر اپر کلاس لوگوں کی جانب سے)۔
جب اس بارے میں مکمل ہوم ورک ہو چکا ہے تو ظاہر وہی ہونا ہے جو ارباب اختیار فیصلہ کر چکے اور کون سا وہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں۔ مگر ہم تو اپنا کام جاری رکھیں ہوئے ہیں اور اس سلسلےمیں چند گزارشات لے کے حاضر ہوئے ہیں۔ جن پر عمل کرنے سے نا صرف نصاب میں بہتری آنے کے امکان ہیں بلکہ ایک مہذب قوم بننے میں بھی مددگار ہوگا۔ کیونکہ قوموں کی پہچام ان اجتمائی عمل سے ہی وابسطہ ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات یقینی بنائی جائے کہ سکول بیگ کا وزن اور کتابوں کی تعداد کو نصاب کی اہمیت اور اس کی افادیت سے نا چانچنہ جائے۔ نمبروں کی دوڑ میٹرک کے بعد شروع کروانی چاہئے کیونکہ پروفیشنل تعلیم کا آغاز وہیں سے ہوتا۔ مگر یہاں نرسری سے ہی، حالانکہ یہ وقت صرف اور صرف بچے کی تربیت کا ہوتا ہے۔ لہذا پرائمری تک کی تعلیم میں نمبر گیم کا رجحان ختم ہونا چاہئے۔ اس لیول پر بچے کو بنیادی تعلیم جس میں اخلاقیات (بات کرنے کی تمیز، گھر میں رہنے کے طور طریقے، لباس، صفائی، چیزیں شئر کرنا، اس کے اعتماد کو بحال کرنا، جھوٹنا بولنا) اس میں اور کچھ شامل کریں تو ٹائم کی پہچان، رنگوں کی پہچان غرض یہ کہ ایسے کام جن سے بچے کی شخصیت بننے میں مدر ملے۔
اس کے بعد مرحلہ آتا ہے مڈل تک کا۔ اس عمر میں بچے کے ذہن میں کچھ پختگی آ نا شروع ہوتی ہے تو ہلکے پھلکے تعلیمی نصاب کے ساتھ اسے دین اور معاشرتی آگاہی دینا ضروری ہے۔ جیسے کہ سیکس ایجوکیشن، ٹریفک قوانین اور روڑ پر چلنے کی آگاہی، فضول خرچی، فرسٹ ایڈ کی تربیت، دوست کیسے ہوں، ناپ تول، گھر میں یا کہیں باہر معمولی درجے کے حادثے کی صورت میں کیا کیا جائے اور اس طرح کے بے شمار موضوع ہیں جن کو تعلیمی سر گرمیوں کا حصہ بنا کر ہم اپنی نسل کو آنے والے وقت کے لئے ایک بہتر اور شائستہ قوم بنا سکتے ہیں نا کہ انہیں ریٹ ریس کا حصہ بنا کر صرف لوگ اکٹھے کرتے رہیں نا کہ انسان۔ وہ انسان جس کو خدا نے اشرف المخلوقات کہا۔
اس کے علاوہ جنرل تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو فروغ دیں۔ فنی تعلیم کے اداروں میں سہولیات دیں تا کہ ہنر مند نوجوان بھی آگے آ سکیں اور ملک و قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ خود بھی معاشی طور پر مضبوط ہوں۔