Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Abu Bakar Siddique
  4. Azad Qaum

Azad Qaum

آزاد قوم

ہم زندگی میں کئی سفر کرتے ہیں بچپن میں گھر سے سکول، لڑکپن میں گھر سے کالج، نوجوانی میں گھر سے یونیورسٹی، جوانی میں گھر سے دفتر اور پھر بڑھاپے میں دنیا سے خالقِ حقیقی سے ملاقات کا سفر۔ قدرت ہمیں کسی پہاڑی مقام، دوسرے شہر، صوبے یا کسی دیگر ملک جانے کا موقع دیتی ہے۔ ہماری سوچ کے زاویے کسی دوسرے ملک میں جا کر ایسے ہی کھُلتے ہیں جیسےگاؤں کے مقامی کو بڑے شہر جانے کا اتفاق ہو۔

ہم اپنے مادرِ وطن میں کئی کام اپنے مخصوص انداز میں سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ہماری اجتماعی سوچ، اجتماعی عمل اور عادتیں تقریباً ایک جیسی ہی ہوتی ہیں لیکن جیسے ہی ہم کسی دوسرے ملک پہنچتے ہیں تو ہم ان لوگوں کی اجتماعی سوچ، اجتماعی عمل اور عادات کو مختلف پا کر حیران، پریشان اور مانوس ہو جاتے ہیں۔ میں آج چین میں موجود ہوں۔ چین سپر پاور بھی بنتا جا رہا ہے اور پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری بھی قائم کرتا نظر آ رہا ہے اس کی وجہ یہاں کا نہایت منظم نظام اور لوگوں کی محنت سے لگن ہے۔

حصولِ رزقِ حلال عین عبادت ہے اور چینی لوگ اس عبادت میں مصروفِ عمل نظر آئے۔ وقت کی پابندی یہاں کا عام وطیرا ہے۔ دیانت داری کی مثال یوں کہ اگر کسی چینی کے پاس حلال خوراک موجود نہ ہو تو وہ دھوکہ دہی سے بیچنے کی بجائے انکار کرنےکو ترجیح دے گا۔ وسیع و عریض چین جیسے ملک میں آپ کو واحد چین کے جھنڈےکے علاوہ کسی پارٹی یا شخصیت کا نام نظر نہ آئے گا۔ کیا یہ ایک آزاد قوم ہے؟

پورے ملک میں زیرِ زمین ریلوے ٹریک Subway کی صورت میں ایک شہر کو دوسرے شہر سے ملا رہی ہیں۔ ہم نے لاہور سے کراچی اور کراچی سے دوبارہ لاہور تک کا سفر صرف 10 گھنٹوں میں طے کیا جو کہ Guangzhou سے Qingdao شہر کا سفر تھا۔ اسی طرح شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے الیکٹرک بس سروس نہایت ہی موزوں اور سستا ذریعہِ آمدورفت ہے۔

تقریباً 1 چینی یوآن میں آپ پورے شہر کا سفر کر سکتے ہیں لیکن بس کے نمبر اور رنگ کا درست انتخاب ہی آپ کو آپ کی درست منزل پر پہنچا سکتا ہے۔ ملک بھر میں کاروبار کیلئے پیسوں کا لین دین خواہ آپ کسی بڑے مال میں ہوں یا کسی چھوٹے سے سٹال پر صرف WeChat ایپ پر QR Code کے ذریعے کیا جاتا ہے جو کہ بہت ہی محفوظ، تیز ترین اور قابل اعتماد ہے۔

ہم جب بھی سفر کی غرض سے باہر نکلے ہمیں نئے نئے مشاہدات و تجربات کرنے کو ملے یعنی کہ یہاں تقریباً سب لوگ چائنیز زبان ہی جانتے ہیں انگریزی زبان ان کیلئے ایسے ہی ہے جیسے "بھینس کے آگے بین بجانا"۔ مگر وہ لوگ آپ کی انگریزی سن کر ایسے ہی خوش ہوتے ہیں جیسے بچہ کسی جوگی کی دھن سن لے۔ مگر یاد رکھیں یہاں اگر آپ کے پاس موبائل اور انٹرنیٹ موجود ہے تو سمجھیں آپ بالکل پاکستان میں ہیں۔

مگر اگر غلطی سے موبائل یا انٹرنیٹ موجود نہیں تو خدا جانے رات کہاں گزرے؟ ہاں البتہ، اگر کوئی ٹوٹی پھوٹی انگریزی جاننے والا چینی مل جائے تو یہ آپ کے مقدر میں اچھا دن رہے گا۔ Baidu Map اور Taobao دونوں کافی ایڈوانس ایپلیکیشنز ہے انہیں انسٹال کرنے کے بعد اندازے لگانا ضروری ہیں کیونکہ یہ صرف چائنیز زبان میں ہیں۔

چینی لوگوں کا رویہ ہر جگہ کی طرح اچھا اور برا ہے یعنی کافی لوگ آپ کی بات سنتے اور آپ کو گائیڈ کرتے ہیں مگر کچھ لوگ وقت نہ ہونے یا زبان نہ آنے کی وجہ سے کنارہ کشی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو Ni Hao کہنا آتا ہے تو یقین مانیے آپ کو Smileکے ساتھ جواب ضرور آئے گا خواہ وہ معمولی لڑکا ہو یا دلکش خوبصورت لڑکی۔

ویسے تو یہاں یونیورسٹی کو سکول کہا جاتا ہے مگر یونیورسٹی واقعی طور پر یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے خواہ وہ ایریا کی صورت میں دیکھ لیں یا تعلیمی سرگرمیوں میں۔ مثلاً ہمارے ہاں چند مرلے کی عمارت کے باہر یونیورسٹی کا بورڈ آویزاں کر دیا جاتا ہے چاہے تعلیمی سرگرمی ایک سکول سے بھی کم ہوں مگر یہاں 2 سے 3 کلومیٹر کا ایریا ایک یونیورسٹی کیلئے معمولی طور پر مختص کیا گیا ہے۔

جس کا سب سے پہلا فائدہ مجھے یہ ہوا کہ پاکستان سے اپنے ساتھ ایک بھاری بھر کم پیٹ لیکر آیا تھا اب چند دنوں میں ہی غائب ہو رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات ایسے چل پھر رہے ہوتے جیسے روزِ محشر سب لوگ میدانِ عرفات کی جانب رواں دواں ہوں۔ دوسرا یہاں تعلیم کو یقینی طور پر انڈسٹری کے ساتھ جوڑا گیا ہے تاکہ طلباء حقیقی طور پر مسائل کے حل تلاش کر کے انڈسٹریز کیلئے مستفید ہو سکیں۔

ذراعت میں یہ لوگ واقعی ہی بہت ترقی پذیر ہیں۔ ان کی سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھرپور ہے۔ نت نئی ایجادات کے تحت یہ لوگ ذراعت کے شعبے میں اپنی پیداوار اور کئی نسلوں میں سبزیاں پیدا کر کے اپنی ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں۔ جس کی جیتی جاگتی مثال ان کی سبزی کے سائز اور کم وقت میں زیادہ پیداوار ہیں۔

خوراک کے لحاظ سے چینی کھانے کئی قسم کے ہیں جس میں سبزیاں اور گوشت دونوں ہی شامل ہیں لیکن ذائقہ صرف پاکستانی کھانوں کا ہی ہے کیونکہ یہ لوگ زیادہ تر سبزی ابال کر استعمال کرتے ہیں۔ مرچ اور مصالحہ جات سے یہ لوگ ایسے ہی دور پائے جاتے جیسے ایک مسلمان شراب سے۔ لہٰذا اگر آپ بھی میری طرح لذیذ کھانوں کے شائق ہیں تو کھانا خود بنائیں یا حلال پاکستانی ریسٹورنٹ کو ترجیح دیں کیونکہ چائنیز ریسٹورنٹس میں حلال کھانا بالکل بھی میسر نہ ہے۔

چینی لوگوں کی ایک مزید خاصیت جو ابھی تک میں سمجھ پایا وہ یہ کہ ان لوگوں کی آپ سے محبت و الفت صرف اُسی صورت میں ہو سکتی جب آپ ان سے کسی تجارتی یا کام کے سلسلے میں مل رہے ورنہ انہیں آپ کی موجودگی یا غیر موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میرے مطابق، ہمارے ملک میں ہر شعبہ کا نظام موجود ہے مگر اس نظام کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کی ذاتی سوچ کو اجتماعی سوچ میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی اور سیاسی فرقہ واریت کی بجائے اسلام اور پاکستان کے مقصد میں ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہائے، صد افسوس، آج ہم بحیثیت قوم "جنے لائی گلیں اودھے نال ٹُر چلیں" والا حساب ہے۔ ہم کب غلامی کے اس چُنگل سے آزاد ہونے میں کامیاب ہوں گے؟

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad