Youm e Muhabbat Ya Youm e Haya?
یوم محبت یا یوم حیاء ؟
سنو مائدہ! ویلنٹائن ڈے کے لیے میں نے ہوٹل میں کمرہ بک کروایا ہے تم تیار رہنا۔ کل کا دن ہماری محبت کا یادگار دن بننے والا ہے۔ مگر عادل میں نہیں آ سکتی۔ یہ صحیح نہیں ہے اور گھر میں کیا کہوں گی میں؟ بس بہانے نہ بناؤ اور سیدھی طرح کہو کہ تمہیں مجھ پر اور میری محبت پر اعتبار ہی نہیں۔ ایسی بات نہیں ہے عادل۔ تم جانتے ہو میں تم سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ مگر۔۔
اگر مگر کچھ نہیں۔ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو تم آؤ گی ورنہ میری موت کی خبر کا انتظار کرنا۔ ایسے تو نہیں کہو۔ تو پھر وعدہ کرو تم آؤ گی۔ وعدہ!
اگلے دن وہ خوب تیار ہو کر، گھر میں دوست کی شادی کا بہانہ بنا کر نکلتی ہے۔ عادل نے سچ کہا تھا یہ دن اس کی محبت کا یادگار دن تھا۔ مگر کہیں کچھ انہونی کا احساس اس کے ضمیر کو کچوکے لگا رہا تھا جسے وہ عادل کی محبت کی آغوش میں نظر انداز کئے جا رہی تھی۔ (ایک مہینے بعد)
عادل تم اپنے گھر والوں کو کب بھیجو گے میرا رشتہ لینے؟ اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ عادل I am expecting، عادل کچھ بولو نا! (دوسری طرف خاموشی)
میرا تم سے کوئی تعلق نہیں مائدہ۔ پتہ نہیں کس کا گناہ میرے سر تھوپ رہی ہو۔ آئندہ مجھے کال مت کرنا۔ انہونی ظاہر ہو چکی تھی۔ اب اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا سوائے خودکشی کے۔
ایسے ہی نجانے کتنی لڑکیاں اپنی محبت کا ثبوت دیتی اپنی عزت، اپنی آبرو اور اپنی زندگی تک ہار جاتی ہیں۔ مگر قصوروار کون ہے؟ وہ لڑکیاں جنہیں اپنی، اپنے ماں باپ کی عزت سے زیادہ اپنی محبت پیاری ہے؟ یا پھر وہ مرد جو محبت کا لبادہ اوڑھے صرف نفس کی تسکین چاہتے ہیں؟ یا پھر یہ دن جو محبت کا نام لیوا ہے؟
ویلنٹائن ڈے کے تاریخی پس منظر میں بہت سی کہانیاں گردش کرتی ہیں مگر مرکز سب کا محبت ہی ہے۔ ان میں سے ایک داستان کچھ یوں ہے کہ تیسری صدی میں روم میں ویلنٹائن نامی ایک عیسائی پادری تھا۔ اس زمانے میں جنگ کا دور دورہ تھا تو بادشاہ کلیڈیوس دوم (claudius 2) نے نوجوانوں کے لئے شادی کو ممنوع قرار دے دیا۔ کیونکہ اسے لگتا تھا کہ ایک غیر شادی شدہ مرد زیادہ بہترسپاہی ثابت ہو گا بہ نسبت شادی شدہ مرد کے۔
ویلنٹائن نے بادشاہ کے اس غیرمنصفانہ فرمان کو نہ مانتے ہوئے لوگوں کی خفیہ طور پر شادی کروانا شروع کر دیں۔ بادشاہ کو جب پتہ چلا تو اس نے ویلنٹائن کی موت کا فرمان جاری کر دیا۔ تاریخ کے حوالے سے لوگوں کا خیال ہے کہ 14 فروری کو ویلنٹائن کی موت ہوئی۔ اس لیے 14 فروری ویلنٹائن کی موت کے یادگار کے طور پر منایا جاتا تھا جو کہ اب محبت کے اظہار کا دن بن چکا ہے۔
پاکستان میں اس دن کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں بلکہ اس دن کو منانے کی ممانعت ہے۔ لیکن پھولوں کی دوکانوں کی رونقیں جس طرح عروج پر ہوتی ہیں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جس جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں، میڈیا کی دنیا جس طرح گلیمرائز کرتی ہے اس دن کو، اسکی ممانعت ہوا میں اڑتی دکھائی دیتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل اس کی مخالفت میں یوم حیاء کی تحریک نے جنم لیا اور پھر ان درسگاہوں میں جہاں مستقبل کے شاہینوں نے پروان چڑھنا ہے وہاں یوم حیاء اور یوم محبت کے جلوس نکلنے لگے۔ اور پھر ان جلوس کی ہاتھا پائی، مار کٹائی کی خبریں میڈیا کی زینت بننے لگی۔
یوم حیاء والے تنگ نظر اور قدامت پسند کہلائے جانے لگے اور یوم محبت والے آزاد خیال۔ اس دن کے منانے والوں کا کہنا ہے کہ ہم اس دن اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور بس۔ لیکن کیا واقعی یہ اتنا ہی سادہ ہے؟ اگر اس دن کوئی سرخ گلاب لا کر آپ کی بہن سے محبت کا اظہار کرے تو؟ اکثر و بیشتر مرد اپنی بہن کو غیرت کے نام پر قتل کر دیں گے لیکن دوسرے کی بہن کے لیے نہایت اشتیاق سے سرخ گلاب لے کر جائیں گے۔ تو آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟
کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم اس دن اپنی زندگی کا ساتھی چنتے ہیں اور دوسرے کی رضامندی جانتے ہیں۔ ہماری بنیاد اسلامی معاشرے پر کھڑی ہے اور اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں۔ زندگی کا ساتھی چننے کے لیے ایک طریقہ کار واضح کر دیا گیا ہے۔ آپ اپنے گھر والوں کے ذریعے نکاح کا پیغام بھجوائیں۔ اس طرح سب کی رضامندی بھی معلوم ہو جائے گی اور آپ کا پیغام با عزت طریقے سے پہنچ بھی جائے گا۔ اسی ضمن میں دوبارہ یہی عرض کروں گی کہ اگر کوئی آپ کی بہن کو ایسے ہوٹلوں میں لے جا کر اس کی رضامندی جانے تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ یقین مانیں اگر یہ آپ کی بہن کے لیے غلط ہے تو یہ آپ کے لیے بھی غلط ہے۔
ماڈرن ازم کے دور میں اب کچھ لوگوں کے لیے یہ سب بے معنی سا ہو گیا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے پر اس کے کس قدر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کا اندازہ تو آپ کو زیادتی کی بڑھتی خبریں سن کر ہو ہی جاتا ہو گا۔ اللہ تعالٰی نے مرد و عورت کے بیچ میں ایک حد مقرر کر دی ہے۔ جب جب اس حد کو توڑا جائے گا معاشرہ خسارے کا شکار ہو کر رہے گا۔ ویسے بھی میڈیا محبت کا جو تصور نوجوانوں کے ذہن میں منتقل کر رہا ہے وہ تصور نکاح کے مقدس بندھن کے بغیر ہوس، شیطانیت، حیوانیت تو ہو سکتی ہے مگر محبت نہیں۔
ماڈرن ازم کے دور نے لڑکا اور لڑکی کے بیچ ایک نیا تعلق بھی استوار کر دیا ہے، دوستی کا۔ لڑکا اور لڑکی کبھی دوست نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں واضح طورعورت کے لیے محرم اور نامحرم کے فرق کو بتا دیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی دلیل لانا چاہے تو وہ یہ بات یاد رکھے کہ وہ اللہ کے مقابلے میں دلیل پیش کر رہا ہے اور اس کی دلیل کے بے وقعت ہونے کا ثبوت یہ معاشرہ خود پیش کر رہا ہے۔
اگر آپ جدید دنیا کے ساتھ قدم ملا کے چلنا چاہتے ہیں، ویلنٹائن ڈے منانا چاہتے ہیں تو اپنے محرم رشتوں کے ساتھ منائیے۔ آپ شادی شدہ ہیں تو اظہار محبت کا حقدار آپ کی بیوی سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ آپ کسی کو پسند کرتے ہیں تو با عزت طریقے سے نکاح کا پیغام بھجوائیں۔ اس کے بعد آپ یوم محبت منائیں یا یوم حیاء، کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اصل مسئلہ 14 فروری میں نہیں بلکہ سوچ میں ہے۔ سوچ کے زاویے کو درست ڈگر پر ڈالیے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ورنہ ہم ایسے ہی یوم حیاء اور یوم محبت کی جنگ لڑتے برباد ہو جائیں گے۔