Main Is Se Behtar Hoon
میں اس سے بہتر ہوں
حکم خداوندی بجا لاتے ہوئے فرشتے آدم کے آگے تعظيماً سر بسجود ہیں۔ ایسے میں کوئی تھا جو حکم عدولی کا مرتکب ہوا۔ پوچھا گیا کہ تجھے کس چیز نے روکا؟ کہا میں آگ ہوں، یہ خاک ہے، میں اس سے بہتر ہوں۔ کہنے والا عزازیل تھا جو ان سر بسجود فرشتوں کا استاد تھا۔ وہ جن تھا مگر اپنی عبادتوں، ریاضتوں کی وجہ سے فرشتوں کے استاد جیسے اعلی منصب پر فائز ہو گیا۔ لیکن اسکی یہ عبادتیں اسے وہ عاجزی نہ دے سکیں جو حکم خداوندی بجا لاتے ہوئے خاک کو سجدہ کر سکے۔
فرمایا گیا کہ نکل جا تو مردود ہوا اور تجھ کو میری پھٹکار۔ اور اس بہتری نے عزازیل کو ابلیس بنا دیا۔ راہ دکھانے والے (استاد) کے بجائے راہ سے بھٹکانے والا (شیطان) بنا دیا۔ وہ آگ تھا اسکی فطرت میں تھا جلا ڈالنا، بھسم کر دینا۔ انتقام کی آگ میں جلتے وہ تب سے اب تک اسی کام میں لگا ہوا ہے۔ جس خاک کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ رذیل ہوا اب وہ اسے بھسم کرنے پر تلا ہوا ہے۔ لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ غلطی اس کی سجدہ نہ کرنا نہیں تھی بلکہ غرور تھا، میں اس سے بہتر ہوں کی جبلت تھی۔
اللہ کے نزدیک بہتری کا معیار صرف ایک ہے جسے خاتم النبیین ﷺ نے کچھ یوں بیان فرمایا "تم میں سے کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں، برتری کا معیار صرف تقوی پر ہے" اور تقوی کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ بنا کسی عذر کے، حیل و حجت کے حکم خداوندی بجا لانا۔
شیطان جس معیار بہتری کی وجہ سے رجیم ہوا اس نے اسی کو اپنا ہتھیار بنا لیا نوع آدم پر کاری وار کرنے کے لئے۔ نسل انسانی اس "میں اس سے بہتر ہوں " کی مالا جبتے ہوئے حسد، انتقام اور نفرت کی آگ میں جھلس رہی ہے۔ کہیں قومیت کا معیار تو کہیں نسل پرستی، کہیں زبان کی برتری تو کہیں برادری کی تقسیم۔ حد تو یہ ہے کہ انسان نے مذہب کو بھی نہ بخشا اور اسے فرقہ در فرقہ بانٹ دیا۔
بات اگر یہاں تک محدود رہتی تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ لیکن اس تقسیم نے ایک گروہ کو دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے "میں اس سے بہتر ہوں " نے عزازیل کو آدم کا دشمن بنا دیا۔ حسد، نفرت اور انتقام کی جس آگ میں وہ خود جل رہا ہے اس نے وہی آگ اولاد آدم کو بھی منتقل کر دی۔ اور اب خاک کہتی ہے کہ میں خاک سے بہتر ہوں۔
ذات، نسل، زبان، برادری سے بھی بڑھ کر اس خاک نے بہت سے معیارات بنا لیے ہیں جیسے ظاہری خدوخال (خوبصورتی)، خوبی وغیرہ، جس کی بنا پر وہ کہتی ہے "میں اس سے بہتر ہوں "۔ چلیں فرض کر لیتے ہیں کہ "میں اس سے بہتر ہوں " کی بنیاد ظاہری خدوخال ہیں، پھر تو اس میں نہ آپ کا کمال اور نہ دوسرے کا قصور۔ کیونکہ یہ تخلیقی صلاحیت تو خدائے عزوجل کی ہے۔ اس بارے میں وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے فلاں کو فلاں سے بہتر صورت میں تخلیق کیا ہے لیکن اس کا فرمان تو کچھ یوں ہے "ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ (سورة التين: ٤)۔ "
اگر بہتری کا یہ تقابل کسی خوبی کی وجہ سے ہے تو پھر بھی بالکل بے بنیاد ہے۔ کیونکہ ہر انسان کا جداگانہ تشخص ہے۔ اس کی اپنی ایک الگ سوچ ہے، سوچنے کا انداز جدا ہے، خوبیاں خامیاں الگ، خواب الگ، منزل جدا، محنت کا معیار الگ تو "میں اس سے بہتر ہوں " کس بنیاد پر؟ باقی رہ گئی ذات، نسل، زبان، برادری کی بات تو یہ سب من گھڑت باتوں کے سوا کچھ نہیں۔
سارے انسان آدم کی اولاد ہیں ان میں نہ کوئی اعلی و ارفع ہے اور نہ ہی کوئی نیچ و پست۔ یہ ذات پات کا غرور ہندوانہ رواج ہے جسے بد قسمتی سے ہم مسلمانوں نے نہ صرف اپنایا بلکہ شدت سے اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ اس بات کو بھول کر کہ اللہ کے ہاں بہتری کا معیار صرف اور صرف تقوی ہے۔
"میں اس سے بہتر ہوں " کی سوچ کو پروان چڑھانے کے پیچھے والدین بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ کلاس میں مقابلے کی دوڑ کو موازنے کی دوڑ بنا دیا ہے۔ ہر کسی کو اپنا بچہ ہر میدان میں اول درجے پر چاہیے۔ اگر کہیں کوئی دوسرے نمبر پر آ گیا تو ساری کامیابیاں ایک طرف اور دیکھو وہ اول آنے والا تم سے بہتر ہے۔ کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنے بچوں کی کمی پر انہیں ٹوکیں مت۔ انہیں ضرور بتائیے پر ساتھ ان کی خوبیوں کو سراہیں بھی، انکا موازنہ نہ کریں۔ انہیں یہ مت کہیں کہ وہ تم سے بہتر ہے یا تم اس سے بہتر ہو کیونکہ یہ وہ جملہ ہے جس کی وجہ سے شیطان جنت سے نکال دیا گیا۔ وہ آدم سے نفرت کرنے لگا۔
اس نفرت نے اسے انتقام پر اکسایا اور آج تک وہ اس حسد کی آگ میں جلتا نوع آدم سے انتقام لے رہا ہے۔ بچوں کے کچے ذہن پر یہ جملہ بہت بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ غرور، نفرت، حسد، احساس کمتری، احساس برتری جیسی برائیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہابیل اور قابیل نے جب اپنی اپنی قربانی خداوند عالم کے بارگاہ میں پیش کی تو ہابیل کی قربانی قبول ہوئی۔ اسی بات نے قابیل کو طیش میں ڈال دیا اور اس نے ہابیل کا قتل کر دیا۔
یہ میرا اپنا قیاس ہے غلط بھی ہو سکتا ہے کہ جب ہابیل کی قربانی قبول ہوئی ہو گی تو قابیل کو اس لیے بھی ذیادہ غصہ آیا ہو گا کہ یہ مجھ سے بہتر ہے، اس لیے اسکی قربانی قبول ہوئی۔ حالانکہ اس کی قربانی کا مال ناقص اور ہابیل کی قربانی کا مال بہترین تھا۔ حضرت ابو جعفر باقر فرماتے ہیں کہ اس قربانی کے وقت حضرت آدمؑ موجود تھے۔ اس لیے قابیل نے ان سے کہا کہ تو نے اس کے لیے دعا کی ہے اس لیے اس کی قربانی قبول ہوئی ہے اور تو نے میرے لیے دعا نہیں کی۔ (قصص الانبیاء مترجم: مولانا عبدالرشید)۔
یہ جملہ قابیل کے حسد کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ یہ حسد کیوں ہوتا ہے؟ جب احساس کمتری حاوی ہونے لگے یا "وہ مجھ سے بہتر ہے" کا اثر بڑھنے لگے۔ اور اس ایک جملے کے اثر نے قابیل کو اپنے بھائی کا قاتل بنا دیا۔
اس لیے خود کو، اپنے بچوں کو اس جملے کے اثر سے بچائیے۔ انہیں موازنہ کرنا نہیں، مقابلہ کرنا سکھائیں۔ ان کے اندر کی خوبی کو پہچانیں۔ دنیا میں ڈاکٹر، انجینئر کے علاوہ اور بھی بہت سے شعبہ جات ہیں۔ ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بجائے ان کے ہنر کو، شوق کو پہچانیں اور اسے تراشنے میں ان کی مدد کریں۔ "میں اس سے بہتر ہوں " یہ جملہ جس بھی زاویے سے انسان پر حاوی ہونے لگے گا وہ اسے بھسم کر دے گا۔ یہ بہت شیطانی جملہ ہے، اس نے عزازیل کی ریاضتوں کو اکارت کر دیا، اس نے عزازیل کو ابلیس بنا دیا، اس نے قابیل کو قاتل بنا دیا۔
اس لیے اس جملے کے ہر انداز سے، ہر زاویے سے بچیں۔ دوسروں سے بہتری کے تقابل کے بجائے اپنے اندر کی وہ بہتری ڈھونڈیں جو عاجزی دے، انکساری دے، اور دوسروں کو فائدہ پہنچائے نہ کہ انہیں کمتر سمجھے۔ کیونکہ غرور و تکبر اللہ کو قطعاً و ہرگز پسند نہیں۔