Bint e Hawa Ke Naam (2)
بنت ِحوا کے نام (2)
عورت بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں جیسے مطالبے نے بنت حوا کو نہ صرف اپنے سامنے بلکہ اس خدائے واحد کی بارگاہ میں بھی شرمسار کر دیا ہے۔ ماں بننا تو اتنا عظیم درجہ ہے کہ اس کے صلے میں رب کریم نے اپنا انعام، اپنی صفات و کمالات کا شاہکار، اپنی جنت، ماں کے قدموں میں رکھ دی۔ اپنی محبت کی مثال پیش کرنی ہو تو رب کریم فرماتے ہیں کہ" میں ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا ہوں "۔ عورت مارچ میں بنت حوا کا ایک اور مطالبہ ہوتا ہے برابری کا، مساوات کا۔ اگر دینی و اخلاقی پہلو سے دیکھا جائے، جو اس دنیا کی اصل اساس ہے تو اسلام میں کہیں مرد و عورت میں کوئی تفریق نظر نہیں آئے گی۔
سورة التحريم میں اللہ تعالٰی نے حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو نبی کی بیوی ہونا کوئی فائدہ نہ دے سکا کیونکہ وہ کفر پر قائم رہی تھی۔ اس کے علاوہ فرعون کی بیوی آسیہ کا ذکر بھی اسی سورة میں ہے کہ ان کو فرعون کی بیوی ہونا کوئی نقصان نہ پہنچا سکا کیونکہ وہ خدا شناس عورت تھی۔ سورة آل عمران میں اس مساوات کا ذکر کچھ یوں ہوا ہے " میں تم سے کسی عمل کرنے والے کے کسی بھی عمل کو ضائع کرنے والا نہیں ہوں، خواہ وہ عمل کرنے والا مرد ہو خواہ عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔ (سورة آل عمران: ١٩٥)۔ "
اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے عورت کو قانونی تشخص دیا۔ بحیثیت ماں، بیٹی، بیوی اس کا وراثت میں حق رکھا۔ ورنہ زمانہ جاہلیت میں تو بیٹی کے سانس لینے سے پہلے ہی اسے درگور کر دیا جاتا تھا۔ بحیثیت بیوی، شوہر کے انتقال کے بعد اس سے جینے کا حق چھین لیا جاتا اور وہ ستی کر دی جاتی۔ اگر بد قسمتی سے وہ بچ جاتی تو زندوں میں شمار کرنے کے لائق ہی نہ سمجھی جاتی۔ اسلام نے تو عورت کو ہر روپ میں اس اعلی درجے پر فائز کیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ماں کے روپ میں جنت عورت کے قدموں میں ڈال دی تو بیٹی کے روپ میں رحمت بنا دیا۔
صحیح مسلم میں روایت ہے " جس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور وہ ان کی اچھی طرح پرورش کرے، تو یہی لڑکیاں دوزخ سے اس کے لیے آڑ بن جائیں گی"۔ بیوی کے روپ میں عورت کو راحت بنا دیا۔ عبداللہ بن عمروؓا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا " دنیا کل کی کل برتنے کی چیز ہے، اور اس دنیا کی بہترین متاع نیک عورت (بیوی) ہے۔ (مسلم شریف) " سنن ابن ماجہ میں ایک روایت آئی ہے کہ آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا " آج محمد ﷺ کے گھر والوں کے پاس ستر عورتوں نے چکر لگایا ہے، ہر عورت اپنے شوہر کی شکایت کر رہی تھی۔ (میں تم سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ) جن لوگوں کی شکایت آئی وہ اچھے لوگ نہیں "۔ یہ ہے عورت کا مقام اسلام میں۔
یہاں نکتہ چینی کرنے والے یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ قانونی طور پر برابری کیوں نہیں؟ وراثت میں حق کم کیوں؟ وغیرہ وغیرہ۔ تو ان کے جوابات سے پہلے آپ کو سر تسلیم خم کرنا پڑے گا کہ مرد عورت پر حاکم ہیں۔ ارشاد ربانی ہے " مرد عورتوں پر قوام ہیں۔ (سورة النساء: ٣٤)۔ " عربی لغت کے ماہرین نے قوام کو محافظ، حاکم، اور کفیل کے معانی و مفاہیم کا حامل قرار دیا ہے۔ لہذا اس لفظ کا مفہوم و مطلب ہو گا کہ وہ شخص جو کسی فرد، ادارے یا نظام کے معاملات کو صحیح و درست طور پر چلانے، اس کی حفاظت و نگہداشت کرنے اور اس کی احتیاجات و ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو (بحوالہ کتاب: اسلام میں عورت کا مقام: ڈاکٹراسراراحمد)۔ "
غیر جانبدار ہو کر سوچیں کہ اسلام نے حق وراثت دینے کے بعد بنت حوا کو اکیلا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس حق کو اس کی ذاتی متاع قرار دے کر اس کی ضروریات کو پوری کرنے کی ذمہ داری اس کے محافظ پر ڈال دی۔ اب ذرا نظر ڈالیں، بنت حوا کے ان حقوق پر جو خود ایک عورت سلب کر لیتی ہے۔ جب ایک بیٹی بیاہ کر جاتی ہے تو ماں کہتی ہے کہ بیٹا شوہر کو اپنے قابو میں رکھنا، تو وہیں جب بیٹے کی شادی کرتی ہے تو کہتی ہے بیٹا اپنی بیوی پر شروع ہی سے رعب رکھنا ورنہ سر چڑھ جائے گی۔ بیٹی حمل سے ہو گی تو ہتھیلی کا چھالہ بنا کر رکھے گی، پاؤں بھی زمین پر نہ رکھنے دے گی۔
لیکن بہو کو اس دوران اگر ذرا سی تکلیف ہو گی تو کہے گی کہ ہم تو دریا کنارے جا کر ڈھیروں ڈھیر کپڑے دھو لیا کرتی تھی، یہ چونچلے دکھانے، ڈرامہ بازی کرنے کی ضرورت نہیں۔ قسمت سے ساس اگر صرف بیٹوں کی ماں ہو تو بیٹی کی پیدائش بہو کا جرم بن جاتا ہے، اس کا جینا اجیرن کر دیا جاتا ہے۔ عورت ہو کر بنت حوا کی پیدائش پر ناگواری۔ کیا یہ زیادتی و حق تلفی نہیں؟ اگر ماں اپنی بیٹی کو ساس اور اپنے بیٹے کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرے تو کیا اس کی اہمیت کم ہو جائے گی؟ حمل کے دوران اپنے بیٹے سے کہے کہ اس کی بیوی کو اس کی توجہ اور پیار کی ضرورت ہے تو کیا اس کا بیٹا اس کے ہاتھوں سے نکل جائے گا؟
اگر بیٹی کی پیدائش پر ناگواری کا اظہار کرنے کے بجائے، اپنے گھر میں بخوشی اس رحمت کا استقبال کرے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ کبھی غیر جانبدار ہو کر بنت حوا کی مظلومیت کی داستان کو کھوجنے کی کوشش کریں تو یہ حیران کن انکشاف ہو گا کہ کہیں نہ کہیں اس میں دوسری عورت کا بھی عمل دخل رہا ہے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، جتنا مرد بنت حوا کا مجرم ہے، اتنی ہی عورت خود بنت حوا کی مجرم ہے۔ اگر عورت، عورت کے حقوق ادا کرنا سیکھ لے تو کتنی ہی مظلومیت کی داستانیں دم توڑ جائیں گی۔ کتنی ہی عورتیں سر اٹھا کر جینا سیکھ لیں گی۔