Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Saleem
  4. Nasha Log Kyun Karte Hain?

Nasha Log Kyun Karte Hain?

نشہ لوگ کیوں کرتے ہیں؟

نشہ لوگ کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ یہ آپکو وقت کی قید سے نکال دیتا ہے۔ وقتی سہی، نشہ کے بعد عموما انسان پر امید ہوجاتا ہے۔ مثبت سوچنے لگ جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کو تعمیری سوچ کی طرف جاتے دیکھا ہے۔

نشہ کیلئے کوئی شراب کا استعمال کرتا ہے تو کوئی چرس کوئی افیم کوئی بھنگ۔۔

ایک نشہ کتابوں کا بھی ہوتا ہے۔ کچھ کتابیں ایسی خماری پیدا کرتی ہیں کہ آپکو لگتا ہے اس کے بغیر آپ جی نہیں سکیں گے۔۔ اگر کبھی کتابوں کا نشہ کا تجربہ نہیں کیا تو آج آپکو ایک کتاب کا تعارف کرواتا ہوں۔ جو آپ پر ایسی خماری طاری کرے گی کہ آپ خود سے بیگانہ ہوجائیں گے۔۔

رضا علی عابدی صاحب کو میں بی بی سی اردو کے پروگراموں کے حوالے سے رسمی سا جانتا تھا۔ کتابیں اپنے آباء کی پڑھنے کے بعد ان کا مداح ہوگیا۔۔ اخبار کی راتیں کا ایک اپنا سٹائل اور شعبہ صحافت کا ایک بہت خوبصورت تعارف ہے۔۔

ان کی کتاب ہے۔ جرنیلی سڑک۔۔

کتاب کا پہلا صفحہ ہی قاری کو اپنی گرفت میں ایسے لے لیتا ہے کہ آپ بھول جاتے ہیں کہ کہاں موجود ہیں۔۔

یہ کتابی شکل ہے اس پروگرام کی جو بی بی سی اردو کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ جس میں جی ٹی روڈ کے ساتھ آباد شہروں قصبوں کے سفر کی داستان بیان کی گئی تھی۔ جو پشاور سے شروع ہوکر کلکتہ تک جاتی ہے۔۔

رضا علی عابدی کا لکھنے کا اسلوب ایسا دلچسپ ہے کہ میرے پاس اس کی مثال دینے کیلئے بہت کم لوگ موجود ہیں۔۔

پشاور سے سفر شروع ہوکر اٹک سے ہوتے ہوئے راولپنڈی پہنچتا ہے۔ روہتاس قلعے سے جہلم شہر پھر کھاریاں، گجرات، گوجرانوالہ سید والا سے لاہور پہنچ کر آپکو ناصرف ہر شہر کا تعارف وہاں کی اہم عمارتوں مقامی لوگوں کی باتیں وہاں کی صنعت، لوگوں کا رہن سہن کے بارے پڑھنے کو ملتا ہے۔ روہتاس کی تاریخ ایک وہ جو ہم جانتے ہیں اور ایک وہ جو وہاں آباد گائوں والے سناتے ہیں۔ گجرات شہر کے ہنر مندوں کی داستان اور کہیں شاہ دولے کا قصہ گوجرانوالہ شہر کی ترقی کرنے کی وجوہات۔۔ کھانے پینے کا بدلتا ہوا انداز۔

بسوں کا سفر اور ایک عام آدمی کی زندگی۔۔ لاہور کا جو نقشہ کھینچا ہے اس پر کیا کہوں۔ میرے پاس نہ الفاظ نہ میرے پاس وہ احساس کہ اس نقشے کی ترجمانی کر سکوں۔

پاکستان سے نکل کر انبالے پہنچ جاتا ہے۔۔ کرنال تھانسر سے ہوتا ہوا دلی پہنچ جاتا ہے۔۔ آگرہ فتح پور سیکری سے ہوتا ہوا کانپور پہنچ جاتا ہے۔۔ الہ آباد کی سیر بنارس کی کہانیاں سناتے سناتے سہسرام پہنچ جاتا ہے جو سیر شاہ سوری کا شہر ہے۔ جی ٹی روڈ جو اسی سیر شاہ سوری کے ذہن کی پیداوار تھی۔ اسے خراج عقیدت پہنچا کر سفر کلکتہ جا کر ختم ہوجاتا ہے۔۔

یہ سفر ایسے نہیں ہے کہ آپ ایک شہر پہنچے اور کتابوں سے اس کی تاریخ نکالی اور بیان کر دی۔ یہ رضا علی عابدی کا سفرنامہ ہے۔ ان کی لفظوں کی جادوگری ہے۔ ان کا مخصوص اسلوب ہے۔ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے ہیں۔ ان سے سوال کرتے ہیں۔ ان کی رائے مانگتے ہیں۔ ان سے قصے سنتے ہیں۔ ان سے ان کے بزرگوں کی باتیں سنتے ہیں۔۔ عام لوگوں کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ ان سے ان کے آبا کے بارے جاننے کی کوشش کرتے۔ شہر کے بارے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔۔

وہ صرف مورخ کی تاریخ نہیں سناتے۔ وہ سینہ بہ سینہ چلنے والی تاریخ کی بھی کھوج لگاتے ہیں۔

یہ 1985 کا سال ہے۔ پاکستان کے اندر کے لوگوں کے رہن سہن کا اگر پتا چلتا ہے تو دوسری طرف آپکو بھارت کے شہروں کی کی تصویر بھی بہت صاف دکھائی دیتی ہے۔۔ اور آپ کو کتاب ختم کرکے تیس سال میں دونوں ملکوں میں آنے والی زندگیوں میں تبدیلی کا تقابل کا موقع ملے گا۔۔

کتاب کا آغاز اس تحریر سے ہوتا ہے۔۔

کلکتے تک جرنیلی سڑک کا اپنا پندرہ سو میل کا سفر شروع کرنے کے لئے میں پشاور پہنچا۔ وہی صبح کی دھند میں ڈوبا ہوا کسی پرانے زمانے کا شہر، وہی سویرے سویرے

روانہ ہونے والی بسوں کے شور میں دبی ہوئی مُرغ کی بانگ اور نئی نئی پیلی دھوپ میں سونے کی طرح چمکتے ہوئے مغلوں اور درانیوں کی مسجدوں کے بلند قامت مینار۔

مجھے اس جگہ کی تلاش تھی جہاں سے جرنیلی سڑک شروع ہوتی تھی۔ اُس پہلے پتھر کی جستجو بھی جو اس عظیم شاہراہ کا زیرو پوائنٹ کہلاتا ہوگا۔ کسی نے مجھے بتایا کہ صدر کے علاقے میں میں جس جگہ پرانا ڈاک بنگلہ تھا وہیں سڑک کے کنارے ایک بڑا سا سفید پتھر کھڑا نظر آیا کرتا تھا۔ جی ٹی روڈ شاید وہیں سے شروع ہوتی تھی، مگر اب کچھ عرصے سے وہ پتھر نظر نہیں آتا۔

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi