Qabze Ki Masajid Jaiz Hain
قبضے کی مساجد جائز ہیں
میں نے آج دن میں حالیہ واقعے مسجد مدینہ طارق روڈ (کراچی) پر پوسٹ لکھی، میری پوسٹ کے ردعمل میں الحمد للہ بہت ساری آراء سامنے آئی ہیں، زیادہ تر اہلیان علمائے کرائم کا اس پر مکمل اجماع ہے کہ قبضہ کرکے مساجد بنانا بالکل جائز ہوتی ہیں، مختلف کمنٹس میں دو سو سے زائد مذہبی دوستوں اور علماء نے مجھے مکمل طور پر فتاوی و علماء کی آراء کی روشنی میں مکمل طور پر قائل کیا ہے کہ قبضے کرکے مسجد بنانا دین کی خدمت ہے اور قبضے کی مسجد کے حق میں انہوں نے بہترین دلائل دئیے ہیں۔ خاص طور پر برانڈڈ عدنان کا خیل کا بیان بھی مساجد کے قبضے کے دفاع کے لئے قابل ذکر ہے۔ مزید سو سے زائد جمعیت علمائے اسلام اور مذہبی دوستوں نے مجھے فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی، کئی ایک نے میرے ایمان کی کمزوری سے آگاہ کیا ہے، اور کچھ نے مجھے ہلکی پھلکی گالیاں بھی دی ہیں۔
ویسے مجھے بہت خوشی ہے کچھ حضرات نے مجھے اس مسجد کے قبضے کے چالیس سال قبل اپروول لینے کا قائل کیا، کچھ نے قیمت ادا کرنے کا، جتنے منہ اتنی جھوٹی باتیں گھڑی گئی ہیں، جب کہ تقی عثمانی صاحب کی ٹوئٹر بھی میرے مؤقف یعنی یہ مسجد پچیس سال قبل قبضہ کرکے بنائی گئی ہے۔ ویسے حقیقتا ًمیں کسی بھی مسجد کے انہدام کے خلاف ہوں، میرے نزدیک علماء اس واقعے کو بہترین طریقے سے حل کرسکتے ہیں، ان کے مذہبی مسالک کے اوقاف والے اس بات کو طے کرتے کہ آئندہ وہ کسی بھی قبضے کی مسجد یا مدرسے کو الحاق نہیں دیں گے، مگر یہاں ایسا نہیں ہورہا، وہ تو قبضے کی جگہ پر مسجد و مدرسہ بنانے کے قائل ہیں، یا اسے قبضہ ماننے سے ہی انکاری ہیں۔
ایک آخری بات جو بہت اہم ہیں، شائد بہت کم لوگ ہی اس بابت جانتے ہونگے کہ اسی مسجد کے پیچھے ایک اور پلاٹ پر بھی اسی مسجد کی انتظامیہ کا قبضہ موجود ہے، اس پلاٹ کے باہر مدرسے کا بورڈ لگا ہوا ہے، کوئی بھی جاکر کنفرم کرسکتا ہے کم ازکم چند سال پہلے تک تو بورڈ لگا ہوا تھا، وہ پلاٹ خالی ہے مگر انتظامیہ کے قبضے میں ہی ہے۔ اس پلاٹ کا کیس بھی عدالت میں ہے اور مدرسہ نہ بننے کی وجہ بروقت اس پلاٹ پر عدالت کی طرف سے Stay لیا گیا تھا۔ ، اس لئے وہاں کسی قسم کی کوئی تعمیر نہیں ہوسکی۔
میں حقیقتا ًاس بات کا قائل ہوگیا ہوں کہ ہمارے مذہبی دوست اور علماء کرام قبضے کی جگہ کے لئے اللہ کے رسولﷺ کے حقیقی عمل کے بھی خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں، جیسے مسجد نبویﷺکے لئے اللہ کے رسولﷺ نے مسجد کی جگہ کو یتیم بچوں کی اجازت اور اس کی قیمت کے بدلے لیا تھا اور اسلام کی پہلی مسجد "مسجد قباء" جب رسول اکرم ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ میں آئے تو بنو عمرو بن عوف میں قیام کیا تھا اور کچھ آرام کے بعد نبیﷺ نے سب سے پہلا کام مسجد قباء کی تعمیر کا کیا تھا، اس مسجد کے لئے کلثوم بن ہدم نے اپنی زمین رسول اﷺ کو مسجد بنانے کے لئے اجازت دی تھی۔
اس مسجد کا پہلا پتھر نبی ﷺنے خود اپنے دست مبارک سے قبلہ رخ رکھا تھا اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ اور حضرت عمر ؓنے ایک ایک پتھر رکھا۔ صحابہ ؓ نے اس کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور نبیﷺ خود بھی مسجد کی تعمیر کیلئے کام کرتے رہے۔ اسلام میں سب سے پہلے یہی مسجد تعمیر کی گئی۔ جو اس جگہ کے مالک نے خود دی تھی۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ آج ہمارے مذہبی دوست اور موجود علماء کرام اور فتاوی پر یقینا دوبارہ غور کرنا چاہئے کیونکہ یہ لوگ اللہ کے رسول ﷺ کے عمل کو نہیں مان رہے اور ان کے نزدیک ان کے فتاوی اور اکابر کی آراء زیادہ بہتر اور مستند ہیں جن کے مطابق قبضے کی مساجد و مدارس ہر صورت جائز ہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم
انشاء اللہ عزوجل ہم قبضے کی مساجد و مدارس کا دفاع کرتے رہیں۔