Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mansoor Nadeem
  4. Mansaf, Arab Ka Tareekh Saaz Pakwan

Mansaf, Arab Ka Tareekh Saaz Pakwan

"منسف" عرب کا تاریخ ساز پکوان

"منسف" عرب کا ایک ایسا پکوان ہے جس کا خطہ عرب کی قدیم روایتی ڈش میں بالکل ہی الگ مقام ہے، شائد عرب ملکوں میں رہنے والے غیر ملکیوں نے بہت کم اسے کھایا ہوگا، اس کی وجہ اس کی تاریخی وجوہات، روایتی سرونگ اور روایتی کھانے کا طریقہ کار بہت دلچسپ ہے، یہ بالکل بھی عمومی پکوان نہیں ہے، اسے فلسطین سے لے کر اردن تک سب اپنا پکوان کہتے ہیں، مگر یہ اردن کا سب سے مشہور پکوان ہونے کے ساتھ ان کا مقامی قومی پکوان بھی ہے، منسف کے بغیر اردن میں کوئی عشائیہ دعوت شادی بیاہ مکمل نہیں سمجھے جاتے۔

یہ شادیوں، جنازوں اور مختلف مواقع پر لازمی پکایا جاتا ہے۔ اس کی پسندیدگی زیادہ تر اردن کے بعد عراق، سعودی عرب اور بلاد الشام کے ممالک ہیں، اس کے بنیادی روایتی عنصر بھیڑ کا گوشت ہے، اور اس کے مزید مرکزی اجزاء دلیہ، دخمیر لگا دودھ یا کسی درجے آج کل لبن (ایک قسم کی لسی) اور گندم کی روٹی یا جو، اور چاول ہیں۔ ویسے تو یہ پورے عرب ملکوں میں ہی مقبول ہے، لیکن جہاں اگر منسف بنانے کے لئے کوئی ریستوران اس کی خصوصیت کے ساتھ باورچی رکھے گا تو لازمی اردنی باورچی کو ترجیح دی جاتی ہے۔

یہ اردن میں انسانی اجتماعات کے پہچان کے طور پر وہاں کے قدیم ترین پکوانوں میں سے ایک ہے، یہ پکوان اردنی معاشرے کے ڈھانچے کی بھی عکاسی کرتا ہے جس میں زرعی اجزاء اور مصنوعات اردن کی پیداواری اقدار بتاتی ہیں۔ منسف کو ایک صحرائی پکوان نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ صحرا میں گندم اور چاول اس حد تک نہیں اگتے، کہ یہ بدوؤں کی روزمرہ کی خوراک کا ایک لازمی حصہ بنتا۔

منسف کے لیے جب میں نے یہ لکھ دیا کہ اردنی معاشرت کا عکاس پکوان ہے تو اس کی توجیح اس معاشرت میں اس کی ایک بھرپور تاریخی حوالہ اور اس کی سرونگ سے لے کر روایتی اطوار کے ساتھ اس کے کھانے کے آداب ہیں۔ منسف کی تاریخ کا آغاز خالصتاََ اردن کی سرزمین ہے، مگر دلچسپ بات ہے کہ یہ نویں صدی قبل مسیح یعنی قریب تین ہزار سال پرانا تاریخی پکوان ہے، جس کی وجوہات مذہںی یا قومیت پر ہے، اس عہد میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان اس خطے میں مقبول خوراک بننے والا یہ پکوان ایک ابدی جدوجہد کا استعارہ ہے۔

اردن کی قومی یادداشت میں منسف پکوان کو فتح اور وقار کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ شاید یہ یہودیوں کے خلاف عربوں کی جیتی ہوئی پہلی جنگ تھی۔ تاریخی دستاویزات، روایات اور شواہد اس بات کی گواہی ہیں کہ تقریباً 3، 000 سال قبل یہودیوں کے درمیان اس شکست نے جنم لیا۔ جو موآبیوں اور ان کی پہلی سلطنت کے خلاف مذہبی اور ثقافتی نفرت کی جنگ کا آغاز اس پکوان کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔

یہ واقعہ موآبی بادشاہ "میشا" کے دور میں ہوا تھا۔ نویں صدی قبل مسیح موآبی بادشاہ میشا کے دور میں، یہ مقبول کھانا اس وقت تاریخی طور پر عرب یہودی تنازعہ کے اظہار کے طور پر پیدا ہوا کیونکہ بنی اسرائیل کا عقیدے کے مطابق دودھ کے ساتھ گوشت پکانا منع تھا، اور بادشاہ میشا اپنی قوم کے اخلاص کو یقینی بنانا چاہتا تھا، اس لیے اس نے یہودیوں سے نفرت کے اظہار کے لئے مقامی شہریوں کو دودھ کے ساتھ گوشت پکانے کا حکم دیا، جس کی بنیاد پر یہودیوں کا عقیدہ مجروح ہوگیا۔

یاد رہے کہ اس وقت نہ مذہب اسلام تھا اور نہ ہی عیسائیوں کے مذہب کا وجود تھا، لیکن آج اردن و فلسطین میں یہ مسلمانوں و عیسائیوں میں یکساں مقبول پکوان ہے۔ بادشاہ میشا نے لوگوں کو اس پکوان کا نہ صرف حکم دیا تھا بلکہ ان پر جاسوس بھی مامور کر رکھے تھے کہ یہودیوں کے ساتھ جنگ میں اس کا ساتھ دیں، بالآخر جنگ میں موآبی بادشاہ کی فتح ہوئی تھی اور یہ فتح میشا کے مخروطی پتھروں پر اس دور میں درج کی گئی تھی (جو آج بھی لوور میوزیم Louvre museum فرانس کے شہر پیرس میں محفوظ ہے) اور اردنی بادشاہ نے اس پر قدیم موآبی زبان میں یہودیوں کے خلاف اپنی فتح لکھی تھی۔

اس پکوان کی اہمیت اتنی بڑھی کہ پھر یہ اردن و فلسطین میں ہر بڑی تقریبات کے مواقع جیسے شادی، ختنہ، پیدائش۔ مسافروں کی واپسی ہو یا رمضان کے مہینے میں اجتماعی افطار کے طور پر، موت کے موقعوں منسف پکوان کو مہمان خانہ میں میت کے اہل خانہ اور اس کے رشتہ داروں کے لیے لنچ یا ڈنر کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ منسف کا تعلق دیہی زندگی کی فطرت سے تھا جس کی بنیاد زراعت اور جانوروں کے پالنے سے تھی، جو علاقے گندم کی کاشت کے لیے مشہور رہے جہاں روٹی بھیڑیں میسر تھیں، وہیں گندم، گوشت اور دودھ فراہم میسر ہوتا تھا۔

پچھلی صدیوں میں اسے بنانے کے لئے روٹی کے ٹکڑوں کی تہہ لگائی جاتی پھر اسے دودھ کے ساتھ پکائے ہوئے گوشت کے شوربے سے بھگو دیا جاتا پھر چاول کی تہہ ڈالی جاتی اور اس کے اوپر گوشت کے ٹکڑے پھیلا دیئے جاتے۔ منسف کے اچھے ذائقے کی سب سے اہم وجہ شاید اس کے چاولوں کی تیاری کا طریقہ ہے۔ منسف چاول کو مصالحے کے علاوہ گوشت کی چربی سے بھرے مقامی گوشت کے پانی میں ابالا جاتا ہے۔ ماضی میں خوشی کی تقریبات میں خواتین مل کر ہی میزبان کے گھر یا رشتہ داروں کے ساتھ جب منسف تیار کرتی تھیں، اس کے ساتھ وہ نغمے بھی گاتی تھیں جو ان کی تہذیب کا حصہ تھا۔

جیسے منسف کو لازمی ایک گول طباق (بڑی گول ٹرے) میں پیش کیا جاتا ہے، جس کا مطلب سب کے لئے برابری اور مساوات ہے، اس کے نیچے باریک روٹی رکھی جاتی ہے، پھر اس پر چاول یا دلیہ اور گوشت رکھا جاتا ہے، اور اس کے اوپر بھی روٹی کے ٹکڑے ڈالے جاتے ہیں، اسے روٹیوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے، اس کے بعد اس پر کھٹا خمیرہ دودھ یا لبن ڈالا جاتا ہے۔ یہ روایتی طریقے سے کھایا جاتا ہے، جہاں بڑے تھال میں سب اپنے بائیں ہاتھ اپنی پیٹھ کے پیچھے رکھ کر ایک بڑی پلیٹ کے گرد جمع ہوتے ہیں اور بغیر چمچ کے دائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں۔

کیونکہ منسف کھانے میں چمچ کا استعمال روایت کے مطابق ناقابل قبول سمجھا جاتا تھا، کھانے کے وقت بھیڑ یا بکرے کا پکا ہوا سر منسف کے تھال میں جیسے رکھا جاتا ہے اس سے موقع کی مناسبت کا اظہار ہوتا ہے جیسے خوشی کے موقع پر منسف میں بکرے کا سر اوپر کی طرف اٹھایا جاتا ہے، اور غم میں بکرے کا سر نیچے کی طرف کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے کھانے کی کئی روایتی شکلیں تھیں، مگر اجتماعی طور پر کھاتے وقت کسی فرد کو تھال میں سے ایسے نہیں کھانا ہوتا کہ تھال کی زمین نظر آئے۔

خیر جدید زندگی کی ترقی کے ساتھ، اب یہ اجتماعی شکل سے ہٹ کر باقاعدہ ایسے باورچی سروسز والے ادارے موجود ہیں، جو منسف اور شادی کے کھانوں کی تیاری میں مہارت رکھتے تھے، اور اب عرب میں مقامی طور پر لوگ گھروں میں منسف کی تیاری کے لیے ان باورچی سروسز کو گھروں میں یا کرائے کی جگہوں پر منسف تیار کرنے میں مدد لیتے ہیں، اکثر اب شادی ہال یا مختلف ہوٹلوں میں اگر بوفے میں یہ کھنسس رکھا جائے تو اس کی تیاری اور پکانے کے لیے الگ الگ بنا لیا جاتا ہے، اور پھر گوشت، چاول اور دودھ کو الگ الگ برتنوں میں رکھ کر مخصوص مقام تک گاڑی میں لے جایا جاتا ہے۔

اب اسے اجتماعی طور سرونگ کے بجائے الگ الگ پلیٹوں پر ہر فرد کے لیے علیحدہ کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور اس میں چاول رکھ کر اس پر گوشت کے ٹکڑے رکھے جاتے ہیں۔ کپ میں یا کسی برتن سے دودھ الگ پیش کیا جاتا ہے، اس پر مختلف خشک میوہ جات خصوصا مونگ پھلی اور چلغوزے کی آرائش بھی کی جاتی ہے، اور اب تو لوگ چمچوں سے کھانا بھی کھاتے ہیں، اس کی ابتداء کرنے والے تو یہ بھی نہیں جانتے ہونگے کہ آج عرب منسف کھاتے وقت جوس اور سافٹ ڈرنکس بھی اس کے ساتھ شامل کرتے ہیں، اور کھانے کے بعد کافی و قہوہ بھی چلتا ہے۔ یہ فلسطین و اردن میں رمضان اور عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی مقبول ترین ڈش بھی ہے۔

Check Also

Adh Adhoore Log

By Muhammad Ali Ahmar