Zaroorat e Rishta Aur Hamare Dohre Miyaar
ضرورت رشتہ اور ہمارے دوہرے معیار
اپنے بچوں کی شادی کے لیے بہترین جیون ساتھی کی تلاش ایک مشکل ترین لمحہ ہوتا ہے۔ والدین اپنی محرومیوں کا ازلہ بچوں کی شادی میں کرنا چاہتے ہیں یا یوں کہیں کہ اپنے تلخ تجربات کو دوہرانہ نہیں چاہتے اور وہ اپنی نامکمل خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ان کے میعار بیٹے اور بیٹی کے لیے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ ان کی ڈیمانڈ اور خواہش اگر اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے یکساں ہو جائیں تو یہ معاملہ بے حد آسان ہو جاے اور مگر ہمارے معاشرے کا یہ دوہرا معیار اب اس راہ میں بڑی روکاوٹ بنتا چلا جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں تو پھر زمین کے باسی اتنے پریشان کیوں؟ اگر یہ فیصلے ہمارے بس میں ہی نہیں تو پریشانی اور ڈیمانڈ کیوں؟ ہم اپنے بچوں اور بچیوں کو اچھے رشتوں کے لیے بوڑھا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ دن بدن ہمارے معاشرے کا ایک ایسا سماجی مسئلہ کیوں بنتا چلا جارہا ہے؟ یہ سب ہمارے خاندانی نظام کے خاتمے اور ٹوٹ پھوٹ کا کیا دھرا ہے۔ ورنہ خاندان کی سب بچیاں اپنی ہی بچیاں سمجھی جاتی تھیں اور ایک وقت تھا کہ بچوں کے پیدا ہوتے ہی خاندان کے بزرگ رشتے طے کر دیتے تھے۔ معیارات بڑھتے جارہے ہیں اور خود غرضیوں نے اب جڑیں پھیلا نا شروع کردی ہیں۔
ہمارے اپنے خاندان میں ہی منافقت کا یہ حال ہے کہ اپنی بیٹی تو رشتہ داروں کو خوشی خوشی بیاہ دیتے ہیں۔ مگر جب بات لڑکے کی ہوگی تو پھر خاندان کی کوئی اچھی بھلی لڑکی بھی معیار پر پوری نہیں اترتی اور وہاں ہم خوابوں کی شہزادی تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ میرے ایک قریبی عزیز کی خواہش تھی کہ اسکی سب بیٹیوں کی شادی خاندان میں ہو مگر چاروں بیٹیوں سے فارغ ہو کر اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے دلہن دوسرے خاندان سے لے آے۔۔ آج میڈیا اور اخبارات میں ضرورت رشتہ کے بے شمار اشتہار بھی اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ یہ مسئلہ اب ہمارے معاشرے میں پریشانی اور بے سکونی کا سبب بنتا چلا جارہا ہے۔
میرے ایک بہت قریبی دوست مجھے بڑے عرصہ بعد ملنے آے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے مجھے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ کی تلاش ہے کیونکہ وہ اب وہ تعلیم مکمل کرکے برسر روزگار بھی ہوگیا ہے۔ ہم بنک ملازمین کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے تعلقات بہت وسیع ہوتے ہیں اور ہم اس طرح کے کاموں میں بڑی آسانی سے مدد کر سکتے ہیں۔ لہذا میں نے کہا انشااللہ ضرور کوشش کریں گے اور اگر کوئی مناسب رشتہ نظر آیا تو انہیں بتاوں گا۔ لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ کس قسم کے رشتے کی تلاش میں ہیں اور آپکی ہونے والی بہو کن خصوصیات کی حامل ہونی چاہیے؟ تو فرمایا ویسے تو رشتے بہت سے ہیں آج کل لڑکی والے رشتوں کے لیے پریشان ہیں مگر کوئی اچھا اور شریف گھرانہ اور خاندان دیکھ لیں کیونکہ خاندانی شرافت ہی اصل معیار ہوتا ہے۔ البتہ خاندان چھوٹا ہونا چاہیے بڑے خاندان کے مسائل بھی بڑے ہوتے ہیں۔
میں نے کہا بس اس کے علاوہ تو کوئی شرط نہیں ہے۔ تو کہنے لگے نہیں بلکل نہیں لیکن چند باتوں کا خیال ضرور رکھیں۔ میں نے کہا وہ کیا ہیں؟ تو فرمایا میرے بچے کا قد ذرا بڑا ہے اس کی مناسبت سے لڑکی دراز قد ہو مگر لڑکے سے زیادہ لمبی نہ ہو! البتہ ساتھ کھڑی ہوئی اچھی لگے۔ بچہ ذرا گندمی اور پکے رنگ کا ہے اسلیے لڑکی گوری ہونی چاہیے۔ اچھی پڑھی لکھی ہو مگر لڑکے سے کم تعلیم یافتہ ہو نا چاہیے۔ برسرروزگار ہو لیکن اس کی آمدنی لڑکے کی آمدنی سے زیادہ نہ ہو بچہ گریڈ سترہ میں ہے اسلیے اسکا گریڈ سولہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
ملازمت ایسی ہو کہ وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمداری بھی پوری کر سکے اور بچوں کو بھی سنبھال سکے۔ بولتی کم ہو مگر گونگی بھی نہ ہو۔ پھر بولے یہ تو آپ کو پتہ ہے کہ آج کل دبلی پتلی اور سمارٹ بچیوں کو پسند کیا جاتا ہے اور نقش بھی معقول ہونے ضروری ہیں۔ زبان چاہے جو بھی بولتے ہوں مگر خاندان اور حسب نسب کا خیال بھی رکھنا ہے۔ لڑکی والے کھاتے پیتے ہوں غریب نہ ہوں کہ لڑکے پر بوجھ بن جائیں بلکہ لڑکی والوں کا صاحب جائداد ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ لوگ یہ نہ کہیں کے بھوکے ننگے لوگوں میں رشتہ کر دیا ہے۔ ہاں البتہ اگر لڑکی کے ماموں اور چچا وغیرہ اچھے عہدوں پر فائز ہیں تو متوسط گھرانہ بھی ٹھیک ہے۔
ہمیں جہیز کا لالچ نہیں ہے اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے مگر والدین اگر اپنی خوشی سے جتنا بھی جہیز چاہے دے دیں ہمیں کوئی اعتراز نہیں جو دینا ہے وہ انہوں نے اپنی بیٹی کو ہی دینا ہے اور اسکے پاس ہی رہنا ہے اسی نے استعمال کرنا ہے۔ لیکن آج کل کے معیار سے کم بھی نہ ہو۔ بس یہی عام سی شرائط بتا کر وہ تشریف لے گئے چند ماہ بعد ملے تو پوچھا کہ میرے کام کا کیا بنا؟ میں نے کہا بھائی اپنی شرائط میں کچھ رعائیت فرمائیں ان سب چیزوں کا یکجا ہونا ممکن نہیں ہورہا ہے۔ بولے تلاش جاری رکھیں بچہ کون سا بوڑھا ہو چلا ہے مگر ان خواہشات پر سمجھوتا ممکن نہیں ہے۔ ان کی تلاش اب بھی جاری ہے اور شاید جاری رہے گی۔
ہمارے معاشرے میں لڑکی والوں کے خیالات بھی اس سے مختلف نہیں ہیں رشتے کے لیے ان کی خواہشات بھی بلکل اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ وہ بیٹی امیر گھرانے میں دینا چاہتے ہیں اور بہو بھی امیر گھرانے سے لانا چاہتے ہیں۔ داماد پڑھا لکھا، برسرروزگار، اور ہینڈ سم چاہتے ہیں اور باقی شرائط ہر ایک مرد و خاتون کی اسی طرح تھوڑا مختلف ہوتی ہیں۔ آج کل تو لڑکی کے والدین لڑکے میں وہ تمام خوبیاں اور کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو کسی مرد کو بمشکل پچاس سال کی عمر میں جا کر حاصل ہو پاتی ہیں۔
رشتوں کے لیے ہماری یہ خواہشات ہمارے بچوں کو بوڑھا کردیتی ہےاور معاشرے میں خرابی اور تباہی کا باعث بن رہی ہیں اور ہم شادی کے اصل مقصد اور ضرورت سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ شکل وصورت، رنگ، نقش، قد وقامت سب اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور انسان اللہ کی بہترین تخلیق ہے۔ اس لیے لوگوں کی باطنی خوبصورتی، نیکی، اچھے اخلاق اور شرافت کو پیمانہ حسن بنانا چاہیے۔
اسلامی تعلیمات اس سلسلے میں باکل واضح ہیں فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے "عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ مال، حسب نسب، حسن وجمال اور دین مگر تم دین والی کو ترجیح دو"۔ اس لیے باطنی حسن اور نیک سیرت ہونا ظاہری خوبصورتی سے سے کہیں بہتر ہے۔ اچھا رشتہ دراصل وہی ہے جو اللہ اور اسکے رسول کے نزدیک اچھا ہے رشتہ کرتے وقت بچوں (مرد و خاتون) کی پسند کا خیال رکھنا اور ان کی راے لینا بے حد ضروری ہے۔ لیکن دونوں اطراف سے چھوٹی موٹی خامیوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے ممکن ہے کوئی ایک خامی آپکو اچھی نہ لگے مگر دوسری بے شمار خوبیوں کو نظر انداز نہ کریں۔ مثبت سوچ اپنائیں اور اپنے لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے خوبیوں کا ایک ہی معیار قائم کریں۔
شادی ایک حکم الہی اور فرض کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ بچوں کے رشتوں کے انتخاب سے متعلق معاشرے میں اسلامی تعلیمات اور خاندانی روایات کے مطابق شعور بیدار کیا جاے اور معاشرے کے بزرگ، اساتذہ، سماجی اور مذہبی تنظیمیں، مسجد ومنبر، میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا اپنا اپنا کردار ادا کرے ورنہ یہ مسائل کم ہونے کی بجاے مزید بڑھتے چلے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔