Ye Safar Kaise Ruke Ga?
یہ سفر کیسے رکے گا؟
پچھلے دنوں مجھے اپنی بیٹی کو حج سے واپسی پر لینے کے لیے لاہور ائیر پورٹ جانا پڑا واپسی پر ٹرین انتخاب کیا اور قراقرم ایکسپریس پر سیٹیں ریزرو کرائیں جس نے دن کے تین بجے لاہور ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونا تھا۔ ہم وقت سے پہلے ہی پہنچ گئے۔ جونہی گاڑی کھڑی کی اور ڈگی کھول کر سامان نکالنا چاہا تو ایک قلی دوڑتا ہوا پہنچا اور بغیر پوچھے سامان اٹھانے لگا۔
میں نے کہا یار! ذرا صبر کرو پہلے اپنا معاوضہ تو طے کر لو تو وہ کہنے لگا صاحب سامان اتارنے کی کون سے پیسے لینے ہیں معاوضہ بھی طے کر لیتے ہیں۔ سامان اتار کر معاوضہ دریافت کیا تو کہنے لگا جناب صرف بارہ سو روپے دے دینا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اتنا تو ٹرین کا کرایہ بھی بنتا ہے۔ بہرحال سودے بازی کے بعد ان کے ٹھیکیدار کی مدخلت کی باعث معاملہ بمشکل چھ سو روپے پر جاکر طے ہوا۔ مجھے یہ رقم بہت زیادہ محسوس ہوئی تو میں نے قلی سے پوچھا کہ تمہارے تو ریلوے کی جانب سے سرکاری ریٹ ہوا کرتے تھے وہ کیا ہوے؟ تو ہنس کر بولا بھلا پاکستان میں کچھ بھی سرکاری ریٹ پر ملتا ہے۔ یہاں تو سو روپے کا اسٹام پیپر بھی سو روپے میں نہین ملتا۔
گوشت کا سرکاری ریٹ آٹھ سو روپے کلو آویزاں ہوتا ہے مگر بارہ سو روپے کلو خریدنا پڑتا ہے۔ آپ کو سرکاری ریٹ قلی کو دیتے ہوے کیوں یاد آجاتے ہیں؟ پھر وہ تقریباََ رونے والا ہوگیا اور کہنے لگا بھائی صاحب اس مرتبہ میرا بجلی کا بل بیس ہزار آیا ہے جو میں نے اپنی بیٹی کا زیور بیچ کر جمع کرایا ہے کیونکہ غذا کے بعد سب سے اہم ضرورت بجلی کی ہو چکی ہے۔ زندگی میں پھیلنے والے اندھیروں سے بچنے کے لیے ایک پنکھ اور دو بلب تو چاہیے ہی ہوتے ہیں۔ پچھلے دو سال میں بجلی کے بل ہمارے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں۔ پورا مہینہ اسی سوچ میں گزرتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ اس مہنگائی کے طوفان میں بھوک اور بجلی سے تڑپتے بچے نہیں دیکھے جاتے جناب!
قلی کی بات درست لگی جب بجلی کا بل بڑھے گا تو اسکی مزدوری کیوں نہ بڑھے؟ ٹرین میں سفر کے دوران ایک وینڈر ملتانی سوہن حلوہ بیچنے آیا میں نے معذرت کی توکہنے لگا سر! ایک ڈبہ میری مدد کے لیے ہی خرید لیں مجھے اپنے گھر کا بجلی کا بل ادا کرنا ہے۔ کبھی آپ نے سنا تھا کہ آمدنی سے زیادہ بجلی کا بل آیا ہو؟ میں لاجواب ہو کر اسے دیکھ رہا تھا اس سے سوہن حلوہ خریدنا ضروری ہو چکا تھا۔ ٹرین ٹکٹ چیکر اور کنڈیکٹر گارڈ تشریف لائے ہمارے ٹکٹ چیک کئے کہنے لگے آپ نے بہاولپور اتر جانا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں! پھر آپس میں کچھ کھسر پھسر کرنے لگے۔ اتنے میں ان کے موبائل فون کی گھنٹی بجی باتوں سے اندازہ ہوا کہ ان کا کوئی افسر ان سے روہڑی سے سیٹوں کے لیے درخواست کر رہا تھا۔
کنڈیکٹر گارڈ نے بڑی خوش اخلاقی، عزت و احترام اور آداب کے ساتھ ان سے معذرت کی کہ اس کے پاس ٹرین میں حیدرآباد سے قبل کوئی سیٹ خالی نہ ہے۔ میں نے پوچھا بھائی! ہماری سیٹیں بہاولپور سے خالی ہو جائیں گیں آپ یہ ہی انہیں دے دیتے۔ وہ بولا جناب ہم اس ٹرین کے ساتھ ہم چھ سات آدمی ہوتے ہیں سب کا رزق ایسی ہی سیٹوں اور راستے میں بنائے جانے والے ٹکٹ سے ہی جڑا ہوتا ہے اگر یہ بھی افسران کو دے دیں تو کھائیں کہاں سے؟ ہماری تنخواہ سے تو ہمارا بجلی کا بل ادا نہیں ہو پاتا ہے۔ پھر اب تو مزید سات روپے یونٹ مزید بڑھائے جارہے ہیں۔
ہماری تنخواہ تو وہی پرانی ہے مگر بجلی کے نرخ کئی سو گنا بڑھ چکے ہیں۔ اس نے بتایا کہ تیز رفتار ٹرینوں کا یہ مسئلہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے اسٹاپ کم ہوتے ہیں اس لیے راستے کی سواری بھی کم ہی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ بجلی، پیٹرول اور گیس کے نرخ بڑھنے سے ہر چیز کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے آج ہر ہر بندہ بجلی کے بل کی بات کر رہا ہے تو مجھے احساس ہوا کہ ملک کے 90 فیصد عوام آج ایک ہی الجھن ہی کہ بجلی کا بل کیسے ادا کریں؟ مجھے ٹرین میں موجود ہر شخص بجلی کے بل کے خوف میں مبتلا نظر آیا۔ ہر شخص پریشان ہے کہ وہ آئندہ بل کیسے اداکرے گا؟
مجھے لاہور میں ایک دیرینہ دوست ملے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے بیشتر ملازمین کی تنخواہ زیادہ سے زیاد تیس سے چالیس ہزار روپے تک ہوتی ہے اس مرتبہ جب انہوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہ دی تو کئی ملازمین نے اپنا بجلی کا بل دکھایا جو ان کی تنخواہ سے بھی زیادہ تھا۔ وہ کہنے لگے مجھے معلوم ہے کہ ایک عام آدمی کا بجٹ چالیس ہزار روپے میں بھی نہیں بنتا مگر میرے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ میں ان کی تنخواہ کیسے بڑھاوں؟ جبکہ میری کاروباری آمدنی آخراجات کے بے پناہ اضافہ سے بتدریج کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اگر کاروبار بند کر دوں تو یہ موجودہ اسٹاف اس آمدنی سے بھی محروم ہو جائے گا۔
مجھے انہوں نے بتایا کہ آجکل بجلی کے بل ہمارے گھروں میں بھی لڑائی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود بجلی کا بل کم نہیں ہو پارہا ہے۔ اگر کچھ بچت کر بھی لیتے ہیں تو حکومت بجلی کے نرخ بڑھا دیتی ہے اور حساب برابر ہو جاتا ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں؟
سوشل میڈیا پر صدر میڈیا کلب احمدپور شرقیہ شیخ عزیز صاحب کی جانب سے ایک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ جہاں منچن آباد میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر میاں بیوی کے درمیان پنکھا چلانے پر جھگڑا اور شدید مارکٹائی کے بعد مقدمہ بھی درج ہوگیا ہے۔ انہوں نے اپنی پوسٹ کےساتھ ایف آئی آر کی کاپی بھی پیسٹ فرمائی ہے جہاں ممتا کی ماری ماں بچوں کو گرمی سے تڑپتا نہ دیکھ سکی اور خاوند کے روکنے کے باوجود پنکھا چلا دیا جو وجہ جھگڑا بن گیا۔ گویا اب بجلی کی وجہ سے گھریلو سکون بھی تباہ ہونے جارہا ہے۔ لوگ رفتہ رفتہ ڈئپریشن کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ویسے تو بجلی کے استعمال پر تھوڑا بہت جھگڑا تو مجھ سمیت ہر گھر میں ہو ہی رہا ہے مگر یہ توقع قطعی نہ تھی کہ نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ میاں بیوی مار کٹائی تک پہنچ جائیں گے۔ میری اپنی بیوی سارا دن بجلی کے بٹن بند کرتی رہتی ہے۔
شیخ عزیز بھائی نے ایک اور پوسٹ میں ایک بجلی کا بل پیش کیا ہے اور اس میں لگائے گئے ٹیکسوں کی وضاحت چاہی ہے۔ ہر بل میں لگائے گئے تیرہ ٹیکس نظر آتے ہیں اور اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ نئے ٹیکس لگانے کے لیے نام تک نہیں مل پارہے ہیں۔ ایک ٹیکس (ایکسٹرا ٹیکس) کے نام سے لگایا گیا ہے دوسرا ٹیکس (فردر ٹیکس) کے نام سے لگایا گیا ہے۔ یہ دونوں اضافی ٹیکس کیا ہیں؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔ مہنگائی کا یہ طوفان اور بجلی کے تیزی سے بڑھتے ہوے ٔ نرخوں کا سفر کہیں رکتا نظر نہیں آرہا ہے اور آج ایک بجلی کا یونٹ تقریباََ ستر روپے تک جا پہنچا ہے۔
مجھے ایک دوست نے بتایا کہ روٹی کے بغیر تو گزارہ ہو سکتا ہے لیکن بجلی کے بغیر بہاولپور کے علاقے میں رہنا مشکل ہے۔ جہاں درجہ حرارت اس مرتبہ پچاس سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے۔ جن لوگوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر یا ادھار لےکر سولر پلیٹس اور سسٹم لگا لیا ہے وہ بھی ایک جانب تو لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں تنگ ہیں تو دوسری جانب آے ٔ دن سولر پر ٹیکس کی خبریں ان کی نیند یں اڑا دیتی ہے۔ بظاہر مہنگائی اور بجلی کے بلز کا کوئی حل نظر نہیں آتا؟ آخر کب تک اپنی جمع پونجی نچوڑ کر بجلی کے بلز ادا کئے جاسکتے ہیں؟ آخر مہنگائی کا یہ سفر کہاں اور کیسے رکے گا؟