Prabhu Ram Aik Tareekhi Kirdar
پربھو رام ایک تاریخی کردار
ڈیرہ نواب صاحب میں ہمارے گھر کے ساتھ ہی نواب بہاولپور کی قائم شدہ ایک زچہ بچہ سنٹر اور چھوٹی سی ڈسپینسری تھی۔ جس کے انچارج میرے والد صاحب تھے۔ جہاں پر ایک دائی، کمپاوڈر اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر ہر وقت موجود ہوتے اور ایمرجنسی فسٹ ایڈ کی سہولت میسر تھی۔ آج سے پچاس سال قبل اس سہولت کا ہونا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ شہر بھر کے مریضوں کو مفت علاج اور دوائی کی فراہمی یقیناََ بڑا کارنامہ تھا اسلیے مریضوں کی ایک بڑی تعداد روزآنہ یہاں آتی تھی جنہیں علاج اور ادویات کے ساتھ ساتھ ریڈکراس سے ملنے والی امداد بھی تقسیم کی جاتی تھی۔ جو بچوں کے خشک دودھ، گھی، گندم، اور کپڑوں پر مشتمل ہوتی تھی۔
ایک دن صبح صبح کچھ شور وغل سنائی دیا تو میں دوسرے بچوں کے ہمراہ دوڑ کر وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ایک خاتون کو کچھ دیہاتی لوگ ایک چارپائی پر ڈال کر لاے تھے۔ وہ خاتون درد سے چلا اور کراہ رہی تھی اس کا جسم نیلا پڑتا جا رہا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس خاتون کو ایک زہریلے سانپ نے کاٹ لیا ہے۔ وہ لوگ دکھانے کے لیے ایک خطرناک مردہ سیاہ اور لمبا اور سانپ مار کر اپنے ساتھ لاے تھے۔ وہ اپنے دیسی ٹوٹکے اور تدابیر سب استعمال کر چکے تھے۔ اس زمانے میں سانپ کاٹے کی کوئی دوائی یا ویکسین وہاں موجود نہیں ہوتی تھی۔ وہاں کی لیڈی ہیلتھ وزیٹر نے ابتدائی طور پر سانپ کاٹے کی جگہ سے کچھ اوپر ایک کپڑا کس کر باندھ دیا اور فوری طور پر بہاولپور ہسپتال لے جانے کا کہا۔ مگر اس زمانے میں بہاولپور جانے کے لیے بھی کم ازکم تین گھنٹے لگتے تھے اور سواری کا ملنا بھی بہت مشکل تھا۔
سب لوگ پریشانی اور ناامیدی کے عالم میں اسکے ارد گرد کھڑے تھے کہ اتنے میں ہمارے گھر کام کرنے والا سویپر جسے وہاں چاچا پربھو رام کہا جاتا تھا وہاں پہنچ گیا اور اس نے سب کو مریض خاتوں سے دور ہٹنے کا کہا۔ ہم سب اسے دیکھ رہے تھے بڑا عجیب منظر تھا اس نے مریضہ کی ٹانگ پر سانپ کے کاٹنے والی جگہ کو بلیڈ سے تھوڑا سا کاٹا اور پر اس زخم پر اپنا منہ رکھ دیا۔ وہ زہر کو چوستا اور پھر تھوک دیتا یہ عمل وہ پندرہ بیس منٹ تک کرتا رہا۔ جوں جوں وہ زہر چوس رہا تھا مریضہ کی حالت بہتر ہوتی جارہی تھی۔ آدھے گھنٹے بعد اس پر غنودگی طاری ہونے لگی اور سکون سے نیند کی حالت میں چلی گئی۔
ایک گھنٹے بعد حیرت انگیز طور پر وہ اُٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی اور مکمل صحت یاب ہو کر گھر جانے لگی تو مریضہ کے ورثاُ نے خوشی سے پربھو رام کو انعام دینا چاہا مگر اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا میرے استاد نے مجھے منع کیا ہے۔ جس دن میں اس کام کے پیسے لونگا یہ صلاحیت مجھ سے چھن جاے گی اور میں اپنے جسم میں موجود زہر سے خود مر جاوں گا۔ پربھو رام نے اپنی جھاڑو اُٹھائی پانی سے اپنا منہ صاف کیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ ہم یہ سب کچھ اور اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
پربھورام کو پورا شہر چاچا پربھورام کہتا تھا۔ ایک آنکھ سے محروم، بھاری بھر کم ڈھلکا ہوا بدن اور ٹوٹی جوتی کے ساتھ میلے کچیلے لباس میں ملبوس یہ کوئی معمولی آدمی نہ تھا۔ یہ بالمیکی ہندوں کا باعزت سر پنچ اور لیڈر تھا ہمارے شہر کی ساری صفائی کا کام اس زمانے میں یہ بالمیکی ہندو گھر گھر جا کر انجام دیتے تھے۔ پربھو رام خود بھی ہاتھ میں ایک بڑی جھاڑو پکڑے ان کے ہمراہ یہی کام کرتا تھا۔ میں نے زندگی بھر یہی دیکھا کہ سانپ اور بچھو کے کاٹے لوگ اس کے پاس آتے تو وہ سب کچھ چھوڑ کر اسکے علاج پر توجہ دیتا اور بغیر کسی لالچ کے زہر چوس کر لوگوں کی جان بچا لیتا۔
ہمارے علاقے میں سانپ کاٹے کا ایمرجنسی علاج یہی چاچا پربھو رام کرتا تھا جو اپنی اس غیر معمولی صلاحیتوں کی باعث لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ زہر کو چوسنا ایک بے حد خطرناک کام ہے جو ہر شخص نہیں کر سکتا اس عمل کو سیکھنے کے لیے اس نے اپنے آپ کو بےشمار سانپوں اور کیڑے مکوڑوں سے ڈسوایا تھا۔ جس سے اس کی قوت مدافعت اس قدر بڑھ چکی تھی اور زہر اسکے جسم پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔ وہ سانپ کو دیوتا اور بزرگ سمجھتا تھا نہ اسکو مارتا تھا اور نہ انہیں پکڑتا تھا۔ وہ اپنے صفائی والے اصل کام کو کبھی نہ چھوڑتا اسلیے شہر کا ہر چھوٹا بڑا اس کا احترام کرتا تھا۔ وہ خود بھی لوگوں سے محبت کرنے والا شخص تھا۔
لوگوں کے گھروں سے گندگی اُٹھانے اور صفائی کے ساتھ ساتھ اپنے عہدے کا خیال رکھتا کسی ہندو بالمیکی عورت، مرد یا بچے کو یہ جرات نہ تھی کہ وہ کسی مسلمان سے زیادتی کرے یا کام سے انکار کرے۔ ان کے معاوضہ کا تعین وہ خود کرتا اگر کوئی شکایت کرتا تو فوری دوسرے بندے کا انتظام کر دیتا تھا۔ محرم کے دوران پہلی محرم سے ہی سیاہ لباس پہن لیتا اور سوگ کی مجالس کو سنتا اور اکثر مصائب کے بیان پر اسے پر روتے دیکھا گیا۔
محرم، عید، اور عید میلاد النبی کے جلوس میں نہ صرف شریک ہوتا بلکہ صفائی کے خصوصی انتظامات کراتا وہ کہتا تھا کہ انسانی دکھ اور سکھ سب کے سانجھے ہوتے ہیں اور مذہب سے بالا تر ہوتے ہیں زخم ہندو کو لگے یا مسلمان کو درد سب کو ہوتا ہے خون سب کا نکلتا ہے سانپ کسی کو بھی کاٹے زہر پھیلتا ہے 1965ء کی جنگ کے دوران پربھو رام نے ہندو کمونیٹی سے دفاعی فنڈ جمع کرنے کی پوری مہم چلائی اور ملک سے وفاداری اور یک جہتی کی مثال قائم کی 1971ءمیں بڑھاپے اور بیماری کے باوجود جنگی قیدیوں کی دیکھ بھال کا فرض ادا کیا۔
ہمارے گھروں میں ہندوں کے لیے علیحدہ خصوصی برتن رکھے جاتے جن میں انہیں کھانا دیا جاتا تھا اسکی دو بیویاں تھیں ایک کا نام چنبیلی اور دوسری کو سنتو کہتے تھے دونوں ہمارے گھر پر اندر کام کرتیں دونوں کے درمیان مثالی تعلق تھا اور پربھو رام باہر کی صفائی کا کام انجام دیتا کبھی کبھی میری امی جان سے کہہ کر چاے بنواتا اور اپنی جیب سے ایک رس کا ٹکڑا نکال کر کھا لیا کرتا ہم بچوں کو اکثر ٹافیاں لا کر دیتا تھا۔ اس کی خوش اخلاقی اور محبت سے پورا شہر متاثر تھا کسی گھر میں خوشی ہو یا غم پربھو رام گھر کے فرد کی مانند سب سے پہلے وہاں پہنچ جاتا اور اپنا کردار ادا کرتا تھا۔ وہ صفائی کرنے کو عبادت سمجھتا تھا۔
ایک مرتبہ شہر میں ہنگامہ ہوگیا کسی شخص نے ایک ہندو کے ساتھ سنگین بدسلو کی کی تو پربھو رام کے اندر کا لیڈر جاگ اُٹھا اس نے شدید احتجاج کیا اور زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ شہر کے تمام ہندو ہڑتال پر چلے گئے اور شہر میں تصادم کی فضاء پیدا ہوگئی چند دنوں میں ہی شہر گندگی کا ڈھیر بن گیا گھروں میں تعفن اور غلاظت پھیلنے لگی تب لوگوں کو پربھو رام اور اسکی کمونیٹی کی اہمیت کا احساس ہوا مجھے یاد ہے پورا شہر اکھٹا ہوکر یونین کمیٹی ہال میں جمع ہوا اور تمام معززین شہر نے غلطی پر باقاعدہ پر بھو رام سے معافی مانگی کیونکہ وہ حق پر تھا لیکن پھر بھی وہ ہاتھ جوڑ کر روتا جاتا اور اپنے لوگوں کو کہتا دیکھو میں نے معاف کیا تم بھی معاف کر دو یہ ہمارے بھائی ہیں ہماری عزتیں سانجھی ہیں انسان خطا کا پتلا ہے بھگوان بھی ہمیں دن میں کئی مرتبہ معاف کرتا ہے ہم بھگوان سے بڑے تو نہیں ہیں؟ اپنے لیڈر کو روتا دیکھ کر تمام ہندو رونے لگے اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔ شہر کی فضاء ایک مرتبہ امن کی جانب لوٹ گئی۔
کہتے ہیں وقت دی ہوئی ہر چیز چھین لیتا ہے یہاں تک کے اچھے لوگ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک دن پتہ چلا کہ بے شمار لوگوں کی جان بچانے والا پربھو رام خود جان کی بازی ہار گیا اور اپنا فن اور صلاحیت بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا لیکن جب تک سانپ کاٹے کا علاج بہت عام ہوچکا تھا۔ کہتے ہیں کچھ روحیں دنیا میں انسانیت، زندگی اور جسم کو امر کرنے کے لیے وجود میں آتی ہیں شاید پربھوم رام بھی سر گنگا رام کی طرح ایک ایسی ہی انسان دوست روح تھی؟ انسانیت کو ایسی روحوں کی ضرورت آج پہلے سے بھی کہیں زیادہ ہے جو دکھی انسانیت کی خدمت کرکے امر ہو سکیں۔
جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز
مل جاے کوئی ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم