Chaye Pani Ke Karve Ghoont
چائے پانی کے کڑوے گھونٹ
میں نے ایک پلاٹ خریدا تو رجسٹری کا مرحلہ آیا پوری زندگی میں اس کام کا پہلا تجربہ تھا۔ میرے پراپرٹی ڈیلر نے مجھے رجسٹری کے اخراجات کی لسٹ مجھے دی تو اس میں رجسٹری فیس، ٹیکس، بلدیہ ٹیکس، ایف بی ار ٹیکس، اسٹامپ پیپرز، رجسٹری کی لکھائی، فرد ملکیت کی کاپی کی قیمت کے ساتھ ساتھ ایک بڑی رقم چائے پانی کے نام سے درج تھی تو میں نے پوچھا یہ چائے پانی کیا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ یہ پٹواری، رجسٹری کلرک، رجسٹرار، غرض جس متعلقہ آدمی سے یہ دستاویز گزرے گی اسے چائے پانی کے نام پر یہ رشوت کی رقم دینی پڑے گی یہاں تک کہ آپ کا فوٹو لینے والا اور رجسٹری کا اندراج کرنے والا ہی نہیں چپڑاسی تک چائے پانی لے گا۔
مجھے پہلی مرتبہ واسطہ پڑا تھا اس لیے میں تھوڑا حیران تھا۔ تو مجھے پراپرٹی ڈیلر نے بتایا کہ یہا ں تو سو روپے کا اسٹام پیپربھی بغیر چائے پانی کے نہیں ملتا ہر ہر کام کے لیے چائے پانی دراصل رشوت کا دوسرا نام ہے۔ اس نے بتایا کہ یہاں ہی نہیں ہر محکمہ میں چائے پانی کا رواج کھلم کھلا رائج ہے اور اسے لینے یا دینے کو جرم نہیں بلکہ حق تصور کیا جاتا ہے اور معاشرے میں چائے پانی کو کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا۔
میں نے پوچھا بھائی دفتر کے استقبالیہ پر بڑا سارا بورڈ آویزاں ہے کہ " رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں"تو وہ ہنس کر بولا یہ رشوت تھوڑا ہے یہ تو "چائے پانی "ہے جو آج سب کی ضرورت اور رواج ہے۔ یہاں تک کہ اب "چائے پانی "کو لوگوں نے ایک صفت بنا لیا ہےاس پر فخر کیا جاتا ہے میرے ایک دوست اپنے بچے کے لیے رشتہ تلاش کر رہے تھے انہوں بچے کی تعلیم، صحت، چودہ گریڈ کی سرکاری نوکری اور اپنی جائداد کے بارے میں بتایا میں نے بچے کی تنخواہ پوچھی تو فخر سے کہنے لگے یار تنخواہ چھوڑو سرکاری محکموں میں تنخواہیں کون پوچھتاہے اللہ کے فضل سے "چائے پانی "ہی اتنا مل جاتا ہے کہ تنخواہ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تنخواہ تو وہ اکاونٹ سے نکالتا ہی نہیں۔
میں نے ایک مرتبہ بجلی کی شکایت درج کرائی تو محکمہ بجلی کا عملہ پہنچا اور میری شکایت دور کردی میں نے ان کو اخلاقا" چائے کے لیے پوچھا تو وہ کہنے لگے بہت شکریہ سر! ہمیں چاے نہیں بس "چاے پانی "دے دیں۔ بجلی یا گیس کا میٹر لگوانا ہو تو بھی چاے پانی دینا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض ڈاکٹر بغیرچائے پانی کےکسی کمپنی کی دوا تک نہیں لکھتے اور لیبارٹریز والوں کو بھی چاے پانی دے کر ہی بزنس ملتاہے۔
جی ہاں ! آج "چائے پانی "ہمارے سرکاری، نیم سرکاری یہاں تک کی نجی اداروں میں ایک عام سی کہاوت بن چکا ہےجس کے بغیر کسی شخص کا کوئی قانونی اور جائز کام بھی نہیں ہو پاتا۔ چائے پانی کو عام زبان میں رشوت سمجھا جاتا ہے اور رشوت کرپشن کی ابتدا ہوتی ہے کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرے تو یہ کرپشن کہلاتی ہے۔ ایک زمانے میں جب اس طرح کی کرپشن کو لوگ بری نظر سے دیکھتے تھے لیکن موجودہ دور میں یہ ایک پیشہ یا پیسے بٹورنے کا ذریعہ بن چکا ہے جسے برا نہیں سمجھا جاتا یہ چاےپانی صرف روپے پیسے میں ہی نہیں ہوتا بلکہ چھوٹے موٹے تحائف اورملکی و غیر ملکی تفریحی سیر و تفریح کے ذریعے بھی ہوتا ہے دفتروں میں چاے پانی دینے والوں کو خصوصی عزت احترام دیا جاتا ہے۔
عام طور پر اپنے دفاع میں یہ لوگ مختلف جواز پیش کرتے ہیں مثلاََ سر! کیا کریں مجبوری ہے ہماری تنخواہ بہت تھوڑی اور اخراجات بہت زیادہ ہیں گھر کا گزارہ نہیں ہو پا تا۔ کچھ اسے سسٹم کی خرابی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا کریں یہ چائے پانی کا حصہ اوپر تک جاتا ہے ایسا نہ کریں تو اپنے عہدے پر برقرار رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ایک جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انہیں خود بھی تو اپنے کاموں کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب ہم خود اپنے ناجائز کاموں کے لیے اس کی پیش کش کرتے ہیں اور بعض اوقات تو اپنا کام جلد کرانے کے لیے بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے جس سے ان عناصر کی ناصرف حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ ان کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں وارڈ بواے، صفائی والے یہاں تک پورا عملہ" انعام " کا خواہش مند نظر آتا ہے اور انہیں خود اس چیز کا عادی بناتے ہیں اسی طرح ایک پیٹرول پمپ پر کھڑا آئل مین کبھی کھلی رقم کا بقایا واپس نہیں کرتا اورشام تک سینکڑوں روپے بچا لیتا ہے جس کا علم پمپ کے مالک کو بھی ہوتا ہے لیکن اس کی اپنی مجبوریاں ہیں بھلا بیس ہزار روپے میں آٹھ گھنٹے کا ملازم کہاں ملتاہے؟
بلاشبہ ہماری روائتی اور اسلامی اقدار میں مہمان نوازی کو ایک خاص مقام حاصل ہے اور خا طر مدارت کے لیے چائے پانی کا اہتمام قابل فخر روایت ہے یہ خوبصورت روایت ہمارے مسلم معاشرے ایک کلیدی حیثیت کی حامل ہے اور ہمارے دین کی روح بھی ہے جس کی وجہ سے ایک مضبوط انسانی معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور باہمی پیار، محبت اور ایثار کی جذبات پروان چڑھتے ہیں مگر بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں مہمان نوازی کی یہ خوبصورت روایت سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں اسے "چائے پانی " کا نام دیکر رشوت ستانی کے مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے ایک مڈل کلاس مزدور، کاروباری یا نوکری پیشہ انسان جو ایماندار بھی ہو وہ چاہے جتنا بھی زور لگا لےمگر بہت سے مرحلے اورمشکلات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کا اسے لازمی سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے ایک اہم مسلہ یہی "چائےپانی "کا ہوتا ہےجسے کہیں"مٹھائی "کہیں" انعام "کہیں ناجائز خدمت کا معاوضہ بھی کہا جاتا ہے اور جس کا لین دین کھلم کھلا ہوتا نظر آتا ہےاور اسے مانگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔
ایک دفتر کا عام سا چپڑاسی بھی چاے پانی وصول کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور اگر کوئی نہ دے تو اسے بڑی حقارت سے دیکھا جاتا ہے۔ مجھے اپنے شہر کی ایک بہت بڑی بیکری میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں موجود گیٹ کیپر بھی سلیوٹ مار کر انعام مانگتا ہے۔ ایک بہت بڑے شاپنگ مال میں اپنی کار آپ بغیر کچھ انعام دئیے پارک نہیں کر سکتے یہی حال شادی گھروں میں پارکنگ کا ہوتا ہے۔ غیر قانونی پارکنگ بھی دراصل ایک طرح کا چائے پانی ہی ہوتا ہے جو کھلم کھلا وصول کرنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔
چائے پانی کے نام پر کرپشن کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ قومی سطح پر ایک مربوط، منظم اور بھر پور مہم کا آغاز عمل میں لایا جاے اور حکومتی سطح پر اینٹی کرپشن کے خاتمہ کے لیے کوشش کو کامیاب بنانے کے لیے ہمارے مسجد ومنبرکو بھی خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہےتاکہ لوگ اس فعل کو ایک گناہ سمجھیں اور ان لوگوں سے نفرت کا اظہار کرکے انہیں اس برائی کا احساس دلائیں۔
ہمیں نا صرف انفرادی اور اجتماعی طور پر ان رشوت خور عناصر کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے بلکہ ایسے لوگوں کو ناپسندیدہ قرار دیا جائے ان کے خلاف رائےعامہ ہموار کرنے کے لیے علماءکرام، اساتذہ، والدین، اہل قلم اور دانشور اس بارے میں شعور اجاگر کرکے اپنا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ہماری خواتین خاص طور پر ماوں، بیویوں اور بیٹیوں پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوے انہیں بتائیں کہ رزق حرام کا ایک قطرہ ہمارے سارے کے سارے حلال رزق کو بھی حرام کر دیتا ہے۔
خدارا اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت رزق حلال سے کریں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اس ناسور سے نمٹنے کے لیے ملکی سطح پر جدید قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ اس"چاے پانی" سے پھیلنے والی مزید تباہی سے اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔