Ulema Ka Khoon Sasta Kyun?
علماء کا خون سستا کیوں؟
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کو غلام بنانے کی کوشش کی گئی، سب سے پہلے اس کے علماء کو نشانہ بنایا گیا۔ کیونکہ علماء وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں روشنی پھیلاتے ہیں اور ان کی موجودگی میں ظلم زیادہ دیر نہیں ٹِک سکتا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں یہی چراغ ایک ایک کرکے بجھ رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
مولانا حامد الحق شہیدؒ، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے صدر اور ایک جری عالم دین تھے، جن کی شہادت نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس نے ہمیشہ حق کی آواز بلند کی۔ ان کے والد مولانا سمیع الحقؒ کو بھی بے دردی سے شہید کیا گیا اور اب وہی تاریخ دہرائی گئی۔ سوال یہ ہے کہ یہ خون کیوں اتنا سستا ہو چکا ہے؟
علماء کا قتل صرف ایک شخص کی جان لینا نہیں، بلکہ ایک نظریے پر وار ہوتا ہے۔ جب ایک عالم شہید ہوتا ہے، تو درحقیقت ایک چلتی پھرتی درسگاہ کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی شہادتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ حق کی راہ میں قربانیاں دینا ہی اصل وراثت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان قربانیوں کے بعد بھی ہم کب جاگیں گے؟
یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارے ملک میں عام مجرموں کے لیے تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے، لیکن جب علماء کی جان لی جاتی ہے تو صرف بیانات جاری کرکے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اگر ہم نے اس روش کو نہ بدلا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ علماء کا خون سستا نہیں، بلکہ ہمارا ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔
ہم حکومتِ وقت سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ مولانا حامد الحق شہیدؒ اور دیگر علماء کی شہادت کے مجرموں کو فوری گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ مجرموں کی نشاندہی، ان کے خلاف سخت کارروائی اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ اگر قاتلوں کو فوری سزا نہ دی گئی تو یہ روش مزید بگڑ سکتی ہے، جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔
اللہ ہمیں شعور عطا فرمائے کہ ہم اپنے حقیقی رہنماؤں کی قدردانی کریں اور ان کے خون سے وفا نبھائیں، نہ کہ اسے بھلا کر اپنی بے حسی کی چادر اوڑھ لیں۔

