Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haris Abbas
  4. Sweden Mein Quran Jalane Ka Mamla

Sweden Mein Quran Jalane Ka Mamla

سویڈن میں قرآن جلانے کامعاملہ

قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے، یہ انسانیت کی تا قیامت رہنمائی کرتی رہے گی۔ اللہ پاک نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ قران سے قبل اترنے والی کتابیں منسوخ ہو چکی ہیں کیونکہ ان میں رد و بدل کر دی گئی تھی، لیکن قرآن واحد کتاب ہے جس میں کوئی ردوبدل نہیں کر سکتا۔ ایک لفظ تو چھوڑیے، زبر زیر کی بھی تبدیلی ناممکن ہے۔ اللہ تعالی نے قران مجید میں خود ارشاد فرما دیا ہے کہ"ہم نے اس ذکر(قرآن)کو نازل کیا ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں"۔

مسلمان قرآن کو اللہ کی کتاب تسلیم کرتے ہوۓ خاص اہمیت دیتے ہیں اور پاک کتاب سے رہنمائی لیتے ہیں۔ اس کی بےحرمتی مسلمانوں کے نزدیک جرم عظیم ہے۔ قرآن اگر مسلمانوں سے سہوا گر جائے تو مسلمان دلی طور پر کانپ اٹھتا ہے اور اس کی معافیاں اللہ تعالی سے مانگنا شروع کر دیتا ہے۔ اس جیسی مقدس کتاب کی بےحرمتی مسلمان برداشت ہی نہیں کر سکتا۔

عید الاضحی کے دن سویڈن میں ایک ملعون شخص نے قرآن کو جلایا اور اس کی بے حرمتی بھی کی۔ اس جہنمی اور ملعون شخص کا نام سلوان مومیکا ہے۔ اس ملعون نے 28 جون کو قران پاک کے بارے میں"اپنی راۓ کااظہار"کرنے کے لیے قران پاک کے اوراق نظر آتش کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ احتجاج سے قبل اس شخص نے ایک نیوز ایجنسی "ٹی ٹی"کو بتایا تھا کہ وہ آزادی اظہار کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ یعنی اس کے نزدیک قرآن کو جلانا اور اس کی توہین کرنا آزادی اظہار کہلاتا ہے۔ اس نے قرآن شریف کو پولیس کی موجودگی میں جلایا۔

قرآن کواس نےعیدالاضحی کے دن جلایا، یہ دن مسلمانوں کے نزدیک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مقدس کتاب کو جلانے سے قبل اس نے حاضرین سے خطاب کیا، اس کی بکواس کا لب لباب یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کا دشمن نہیں لیکن ان کے خیالات کا دشمن ہے۔ اللہ پاک کی آخری کتاب کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی، یہ تقریبا ہر ایک کو علم ہے، مگر مسلمانوں کو تکلیف دینے کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی ایسی شرارت کر دی جاتی ہے، جس سے امت مسلمہ بھڑک جاتی ہے۔ اس گھٹیا حرکت پر امت مسلمہ احتجاج کر رہی ہے۔ پاکستان، سعودی عرب، افغانستان، مصراور کئی دوسرے اسلامی ممالک میں احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس قسم کی حرکت کو روکنے کے لیے سخت قسم کی کاروائی کرنا ہوگی۔

سویڈن نے یہ ایک نجی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس سے بری الزمہ ہونے کی کوشش کی، لیکن صرف مزمتی بیان کرکے اس مکروہ عمل سے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔ یورپی یونین بھی اس کی مذمت کر چکا ہے لیکن امریکہ اس فعل کی حمایت کر رہا ہے۔ امریکہ نے حکومت کی طرف سے اس اقدام کو آزادی اظہار سے تعبیر کیا ہے۔ امریکہ میں بھی قرآن کی بے حرمتی کی جاتی رہی ہے، گوانتانا موبے کےجیل خانے میں فوجیوں نے مسلمان قیدیوں کو اذیت پہنچانے کے لیے بارہا قرآن کی بے حرمتی کی۔ امریکہ جو نام نہاد آزادی اظہار کا داعی ہے، لیکن اس کا عمل منافقانہ طور پرمسلمانوں کے خلاف ہوتا ہے۔

قرآن کو جلا کر یا اس کو پھاڑ کر، اس کی اہمیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ قران کے خلاف بغض پہلے بھی ظاہر ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ یہ نہیں کہ آئندہ قرآن کی یا مقدس ہستیوں کی توہین یا گستاخی نہیں ہوگی، گستاخیاں ہوں گی، لیکن ان کو روکنے کے لیے ان کو سزا بھی ملنی چاہیے۔ مسلمان ایسی کمزور پوزیشن میں ہیں کہ مقدس کتاب اور ہستیوں کی گستاخی بھی نہیں رکوا سکتے۔ معمولی سا مذمتی بیان دے کرسمجھ لیا جاتا ہے کہ اپنا حق ادا کر دیا گیا ہے۔ امت مسلمہ کم از کم اس مسئلہ پر اکٹھے ہوکردشمنان اسلام پر پریشر ڈالناہوگا۔ کئی اسلامی ممالک جو گستاخی کا ارتکاب کرنے والے ممالک سے کاروباری تعلقات رکھتے ہیں، بائیکاٹ کرکے ان کو گستاخی کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔

مسلمان عید الاضحی کے دن جانور قربان کرکے اس بات کا اللہ تعالی کے آگے اظہار کرتے ہیں کہ اگر دین کی خاطر جان کی قربانی کا موقع آیا تو جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے، اسی دن مسلمانوں کے نزدیک جو مقدس دن ہے، قرآن کو پاؤں کے نیچے روند کر اور اوراق پھاڑنے کے بعد جلا کر مسلمانوں کو حد درجہ اذیت دی گئی۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک کسی مقدس ہستی یا قرآن کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ اسلامی شعائر کی توہین بھی اس لیے کی جاتی ہے کہ اسلام ایک زندہ دین ہے، اسلام سے ان کو سخت تکلیف پہنچتی ہے جس کا اظہار گستاخیاں کرکے کرتے رہتے ہیں لیکن یہ عمل مسلمانوں کے لیے بھی آزمائش بن جاتا ہے۔

قران کو پھاڑ کر یا جلا کر دین اسلام کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کے تحفظ کا ذمہ اللہ پاک نے خود لیا ہوا ہے۔ یہ ان کی سوچ سے بھی دور ہے کہ وہ قرآن کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو مسلمانوں کے سینوں میں محفوظ ہے۔ قیامت تک رہنے والی کتاب ہے، قیامت کے قائم ہونے تک یہ زندہ وجاوید رہے گی۔

اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا کے خلاف 15 مارچ کا دن عالمی طور پر منایا جاتا ہے۔ اسلامو فوبیاکے خلاف مسلمان مزید جدوجہد کریں۔ جدوجہد میڈیا کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے اورحکومتی سطح پر بھی کی جا سکتی ہے۔ او۔ آئی۔ سی مسلمانوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے، اس پلیٹ فارم پر بھی آواز اٹھائی جا سکتی ہے۔ امت مسلمہ کو دشمنان اسلام کوسمجھانا ہوگا کہ مسلمانوں کے نزدیک مقدس کتاب یا مقدس ہستی کی گستاخی ناقابل برداشت ہے۔ اسلام نے تو دوسروں کے جھوٹے خدا کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے، کیونکہ اگر کسی کے جھوٹے خدا کو گالی دی جائے تو وہ بدلہ میں سچے خدا کو گالی دینا شروع کر دے گا۔ او۔ آئ۔ سی جو نام نہاد سا پلیٹ فارم ہی سہی مگر اس قسم کےافعال کوروکنے کے لیے سخت قسم کے اقدامات کرے۔ پاکستان منظم طریقے سے ان گھٹیا افعال کو روکنے کے لیے کوشش کرے۔

دنیا کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ گستاخانہ افعال سے آزادی رائے کا اظہار نہیں کیا جاتا بلکہ اس سے نفرت پھیلتی ہے۔ آزادی رائے اظہار کے لیے کچھ حدود و قیود ہوتی ہیں۔ مسلمان دوسرے مذاہب کے پیغمبروں کا بھی احترام کرتے ہیں۔ حضرت عیسیؑ، حضرت موسیؑ، حضرت سلیمانؑ اور تمام پیغمبروں پر ایمان لائے بغیر مسلمان نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کی بھی توہین نہیں کرتے اور نہ ان کے بانیوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ قرآن کی توہین یادوسرے مقدسات کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس کے لیے احتجاج ضرور کرنا چاہیے لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کی پراپرٹی یا جان و مال کو نقصان نہ پہنچ سکے، کیونکہ احتجاج کی صورت میں ہم اپنا نقصان کر لیتے ہیں جو کہ جگ ہنسائی کاسبب بھی بنتا ہے اور دشمنان اسلام کوبھی خوش ہونے کاموقع مل جاتا ہے۔

حکومت کو سفارتی تعلقات کے ساتھ تمام تعلقات ختم کر دینے چاہیے۔ ہ دنیا کوپیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیے شعائر اسلام سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal