Bachon Ke Waldain Ke Khilaf Tund Khoi Ke Asbab
بچوں کے والدین کے خلاف تندخوئی کے اسباب
والدین اور اولاد کو رب نے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ والدین اولاد کے لیے اور اولاد والدین کے لیے سہارا ہیں۔ ان کے آپس کے تعلقات خاندان کو تشکیل دیتے ہیں۔ خاندان کی بہتری کے دونوں اطراف کا کردار اہم ہے۔ جس طرح ایک گاڑی اپنے پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی اسی طرح ایک خاندان بھی اپنے پہیوں /ستونوں کے بغیر چل تو کیا کھڑا بھی نہیں ہوسکتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ خاندانی نظام اور تعلیمی نظام ہی قوم کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ نیز ان کی تباہی قوم کی تباہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی نظام بری طرح اثر انداز ہو چکا ہے اور جو خاندانی نظام کے اثرات باقی ہیں موڈرنیزم اس کو بھی نگانے کے در پے ہے۔ یہ کالم خاندان کی تکمیل میں آنے والی ایک آہم روکاوٹ کی عکاسی کرتا ہے۔
والدین کا اولاد کے ساتھ رویہ پرورش کا اہم جزو ہے۔ بچوں کا سب سے زیادہ وقت والدین کے ساتھ گزارتا ہے۔ جس میں وہ اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا وغیرہ جیسی بنیادی تعلیم حاصل کرنے ہیں۔ ان میں اگر والدین کی طرف سے کوتاہی ہو تو اولاد کی تربیت میں منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ جس سے اولاد کے اندر ماں باپ کے خلاف تندخوئی جیسے عناصر پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان عناصر کے پیدا ہونے کی چند وجوہات ذیل ہیں۔
پہلا والدین کی اپنے بچوں سے دوری۔ اس کی دو اشکال ہیں۔ ایک اپنی اولاد کو پیدا ہوتے ہی بیبی سیٹر کے سپرد کر دینا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ وقت کی کمی بتایا جاتا ہے۔ جو کہ ایک بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ اولاد جس نے آگے چل کر والدین کی نمائندگی کرنا ہوتی وہ ان کے وقت کی محتاج ہو جاتی ہے۔ نتیجہ ان کے اندر والدین کے ساتھ انسیت پیدا نہیں ہو پاتی اور وہ والدین سے نفرت کے جذبات اختیار کر لیتے ہیں۔ دوسرا بچے کو تین/چار سال کی عمر میں سکول داخل کر دینا۔ جو کہ ظلم ہے۔ اسلام نے بھی سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا ہے۔ لیکن والدین اپنی ذمہ داری سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہ قدم اٹھانے ہیں۔ جس کا نتیجہ اولاد کا ذہنی تنائو میں مبتلا ہونا اور نفرت کی صورت میں نکلتا ہے۔
دوسرا اولاد کی باتوں پر غور نہ کرنا اور توجہ نہ دینا۔ والدین اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے اولاد کو وقت نہیں دے پاتے اور اپنے والدین ہونے کے فرض کو بھول جاتے ہیں۔ اگر اولاد کی باتوں پر غور نہ کیا جاہے تو ان کی غلطیوں اور مسائل کا کیسے حل کیسے نکل سکتا ہے۔ نیز اولاد اس وجہ سے الجھ کر منفی کردار اپنا لیتی ہے۔
تیسرا بچوں کو ہر بات کو غیر ضروری پرکھنا۔ اس سے اولاد کے اندر مایوسی کا عنصر پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ والدین سے چیزوں کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
چوتھا اپنے بچوں کا دوسروں سے موازنہ کرنا۔ اللہ نے ہر انسان کو مختلف ہنر سے نوازا ہے۔ بجائے اس کے کہ دوسروں سے موازنہ کیا جائے اور ان کی تحقیر کی جائے بہتر یہ ہے کہ ان کے ھنر کو پہنچان کر ان کی معاونت کی جاہے۔
پانچواں ہر ایک کے پاس اپنی اولاد کی برائی اور شکایت کرنا۔ جو سب سے زیادہ اولاد میں والدین کے لیے نفرت کا باعث بنتا ہے۔ اس سے جذباتی اور نفسیاتی اثرات مثلاً تشویش و دباؤ، خود اعتمادی کا فقدان، غصہ وغیرہ پیدا ہوتے ہیں اور اولاد اپنے والدین سے دور ہو جاتی ہے۔
مختصر یہ کہ اگر ہمیں اپنی قوم کی بہتری چاہیے تو اپنے خاندانی نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ اپنی اولاد کی بہتر تربیت کرنے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ بچوں میں والدین کے خلاف تندخوئی جیسے جزبات پیدا نہ ہو سکیں اور ایک مضبوط معاشرہ تشکیل پاسکے۔