Islam Mein Climate Change Ka Tasawur
اسلام میں کلائمٹ چینج کا تصور

ماحولیاتی تبدیلی (کلائمٹ چینج) ایک ایسا موضوع ہے جسے طویل عرصے تک افواہ سمجھا جاتا رہا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، پہلے یورپ اور پھر آہستہ آہستہ ایشیا میں بھی لوگوں نے اس کے اثرات کو محسوس کرنا شروع کیا اور لوگوں نے اس کو حقیقت ماننا شروع کیا کہ ماحولیاتی تبدیلیاں واقعی لوگوں کی زندگیوں اور دنیا کے ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔
انڈسٹریلائزیشن کا دور، جو 18ویں صدی کے آخر میں شروع ہوا، دنیا میں تبدیلیاں لایا اور صنعتی انقلاب نے جنم لیا۔ ایندھن، خاص طور پر کوئلہ، توانائی کا بنیادی ذریعہ بن گیا، صنعتکاری کی وجہ سے شہروں کی ترقی ہوئی کیونکہ لوگ فیکٹریوں میں ملازمتوں کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہری مراکز کی طرف منتقل ہو گئے۔
صنعتی سرگرمیوں اور فوسل فیول کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس توانائی کے بنیادی ذرائع بن گئے۔ ان کے جلنے سے کاربن ڈائی آکسائی جیسی گیسوں کا اخراج ہوا، جس نے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کیا۔ 1750 میں ایندھن سے سی او ٹو کا اخراج تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن 1900 تک یہ 2 بلین میٹرک ٹن سالانہ تک پہنچ گیا اور آج یہ 36 بلین میٹرک ٹن سے تجاوز کر چکا ہے۔
جیسے جیسے شہر بڑھتے گئے اور زراعت زیادہ مشینی ہوگئی، جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی ہوئی جس نے زمین کی کاربن ڈائکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیا اور گرین ہاؤس گیسیس کے اثر میں اضافہ ہوا۔ 1750 اور 1850 کے درمیان صنعتی مقاصد کیلئے جنگلات کی کٹائی نے گرین ہاؤسُ، گیسیسز کی بڑھتی ہوئی سطح میں نمایاں کردار ادا کیا۔
صنعتی عمل نے بڑی مقدار میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور دیگر آلودگیوں کو فضا میں خارج کیا، جس سے مقامی اور علاقائی آلودگی میں اضافہ ہوا۔ سمندر انسانی سرگرمیوں سے خارج ہونے والےکاربن ڈائکسائیڈ کا تقریباً 25-30% جذب کرتے ہیں۔ جیسے جیسے گرین ہاوس گیسیس کی سطح میں اضافہ ہوا، سمندروں میں تیزابیت پیدا ہونے لگی جس سے سمندری ماحولیاتی نظام متاثر ہوا، انیس ویں صدی کے آخر سے عالمی درجہ حرارت میں تقریباً 1.1° سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے اور اسکا ایک اہم حصہ صنعتی سرگرمیوں سے بڑھتے ہوئے کے اخراج کی وجہ سے ہے۔
اس کے بعد پہلی اور دوسری جنگ عظیم لڑی گئیں۔ سائنس کہتی ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے مقابلے میں کلائمٹ چینج زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس کے اثرات عالمی، طویل مدتی اور بعض اوقات ناقابل واپسی ہیں۔ بڑھتے درجہ حرارت، سمندری سطح میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زمین پر زندگی کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے جو کہ جنگوں کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔
اسلام میں، اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: "ہم نے ہر چیز کو ایک مقدار کے ساتھ پیدا کیا ہے"۔ (سورۃ القمر: 49)۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "اور ہم نے چاند اور سورج کو حساب سے پیدا کیا ہے"۔ (سورۃ الرحمن: 5)۔
یہ آیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اللہ نے زمین اور کائنات میں توازن پیدا کیا ہے اور انسان کا فرض ہے کہ وہ اس توازن کو برقرار رکھے۔
بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ عذاب اور رحمت اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ ہی عذاب لاتا ہے اور رحمت نازل کرتا ہے۔ لیکن جب انسان قدرت کے کاموں میں مداخلت کرتا ہے اور بگاڑ پیدا کرتا ہے، تو اس کے منفی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص مقدار میں پیدا کیا ہے اور جب انسان اس توازن کو بگاڑتا ہے تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بے شمار گاڑیاں چل رہی ہیں، پلاسٹک جلایا جا رہا ہے اور صنعتی کارخانوں کی وجہ سے ماحول آلودہ ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "وَلاَ تُفُسِدُوُ فِی الُاَرُضِ" (ترجمہ: اور زمین میں فساد نہ کرو)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین پر امن و انصاف کے ساتھ رہنا چاہیے اور قدرتی وسائل کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے پناہ عقل عطا کی ہے تاکہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کر سکے اور زمین کی حفاظت کرے، نہ کہ اسے فساد اور تباہی کا شکار بنائے۔
اور وہ چیزوں کو سمجھے اور دنیا کے نظام میں غور و فکر کرے۔ بارشیں برسانا اور عذاب لانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، لیکن اللہ نے انسان کو اتنی ذہانت عطا کی ہے کہ وہ مختلف ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے مصنوعی بارش برسا سکتا ہے۔ اسی طرح، اگر فصلوں کو نقصان پہنچانے والے اولے گرنے کا خدشہ ہو، تو انسان ایسی توپیں استعمال کرتا ہے جو ان اولوں کو دور کر دیتی ہیں۔ مزید برآں، الٹراساؤنڈ کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ بچہ لڑکا ہے۔
اسلام میں ماحولیات کی حفاظت کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے درخت لگانے کی تلقین کی اور یہ کہ زمین کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "جو مسلمان درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان، پرندہ یا جانور کھاتا ہے، تو وہ صدقہ ہے"۔ (صحیح بخاری)۔
لہٰذا، اگر اس قسم کی پیش گوئیاں ہو رہی ہیں تو یہ حقیقت پر مبنی ہیں اور ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا اور عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

