Bewafa Muashre Ki Wafadar Police
بے وفا معاشرے کی وفادار پولیس
جب میں پولیس کی زندگی پر کچھ لکھنے بیٹھا تو انہیں روزانہ کی بنیاد پر ان کے فرائض ادا کرنے کے دوران پیش آنے والے بے حد مشکلات پر غور کرنے میں مبتلا ہوگیا۔ سماج کی حفاظت کیلئے سر پر کفن باندھ کر پولیس وردی پہننے والا شخص نہایت بڑے اور دلیر دل کا مالک ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے لوگ پولیس کو اتنی عزت نہیں دیتے جتنی عزت کے وہ حقدار ہیں۔ البتہ رشوت خور اور ظالم کہنے والے افراد کی الزام تراشی ضرور ہوتی ہے۔ مگر کسی کو معلوم نہیں کہ پولیس وردی پہنے شخص روزانہ کے بنیاد پر کتنے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق 2000 سے لے کر 2021 تک خیبر پختونخواہ پولیس کے 1500 اہلکار شہید ہوئے، جنہیں خودکش دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، اور کچھ افسران کو دہشت گردوں نے ذبح کرکے شہید کر دیا۔ خیبر پختونخواہ کی 35 کروڑ آبادی کی خدمت پر تقریباً 70 ہزار پولیس اہلکار، مرد اور خواتین، ڈیوٹی پر مامور ہیں۔
خیبر پختونخواہ پولیس کا پہلا شہید رفیع اللہ جان تھا جنہوں نے 1962 میں شہادت حاصل کی تھی۔ جون جولائی کی شدید گرمی میں، بنا پنکھے ہماری حفاظت کیلئے کھڑے پولیس سپاہی پیار، محبت اور ٹھنڈے پانی پیش کرنے کا حقدار ہوتا ہے۔ مگر ہمارا علمیہ یہ ہے کہ ہم ان سے سیدھے منہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے، اور اگر وہ کوئی سوال کرے تو ہم سخت اور نفرت بھرے لہجے میں جواب دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ سپاہی بھی ہماری طرح کا انسان ہوتا ہے جس میں اکثر گھر کے سربراہ ہوتے ہیں، جن کے کندھوں پر گھر کا بوجھ اور ڈیوٹی کی ٹینشن ہوتی ہے، جسے اوپر سے سخت گرمی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
اسی اثنا میں اگر وہ تھوڑے سے سخت لہجے میں بات کریں تو ایئر کنڈیشن گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہم جیسے لوگوں کو برا لگ جاتا ہے۔ اسی طرح ٹریفک پولیس بھی بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کو کوئی چھتری میسر ہو، ورنہ تپتی دھوپ میں ٹریفک سنبھالتے نظر آتے ہیں۔ اسی دوران اگر کوئی ٹریفک قانون توڑتا ہے اور ٹریفک پولیس اہلکار اسے روکتا ہے تو سب سے پہلے تو وہ رُکتا نہیں، اور اگر رُک جائے تو سفارشات ڈھونڈنے کیلئے کال ملاتا ہے۔
ٹریفک چالان بھرنا ہم کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ پیسے پولیس کے جیب میں جاتے ہیں حالانکہ یہ پیسے حکومت کے خزانے میں جاتے ہیں۔ ہماری آرمی جو ہماری بارڈروں کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے، جن سے ہمارا براہ راست کوئی واسطہ نہیں پڑتا، لیکن انکو ہم کہیں دیکھتے ہیں تو سلوٹ مارتے ہیں اور نہایت پیار و عزت کا اظہار کرتے ہیں، مگر پولیس اہلکار جو دن رات ہمارے جان و مال کی حفاظت پر مامور ہیں اور ہمارا روزانہ ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر افسوس ان سے ہمارا رویہ محبت سے خالی ہوتا ہے۔
آدھی رات کو اگر ہم خود کو غیر محفوظ محسوس کریں تو پولیس کو کال کرتے ہیں، اگر کوئی جان کی دھمکی دے تو پولیس کے پاس جاتے ہیں۔ گھر پر چوری یا ڈکیتی ہو جائے تو سب سے پہلے پولیس کو بلاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، بلکہ ہمارے گھریلو معاملات اور مسائل بھی آج کل پولیس، ڈی آر سی کے ذریعے تھانوں میں حل کر رہی ہے۔ صرف یہی نہیں، یہ ہمارے گھروں کو جوڑنے میں بھی دن رات مصروف رہتے ہیں۔
ہم سے اتنا پیار کرنے والے اور ہمارا اتنا خیال رکھنے والے لوگوں سے آخر ہم نے اتنی دوری کیوں اختیار کی ہے؟ ہماری پولیس کے سپاہی یا افسر، اکثریت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پولیس ڈیوٹی میں کوئی بنگلے نہیں بناتا۔ حال ہی میں ڈی ایس پی اقبال مہمند چار پولیس ساتھیوں سمیت دہشت گرد حملے میں شہید ہوئے۔ جب انکی لاش انکے گھر لے جائی گئی تو لوگوں نے دیکھا کہ انکا گھر سادہ کچّا مکان تھا۔ لوگ دیکھ کر حیران ہو گئے۔ شہید ہونے کے بعد قبر پر پھول چڑھانے اور خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ، اگر ہم انکی زندگی میں بھی انکی عزت اور قدر کریں تو انکی حوصلہ افزائی ہوگی۔ کیونکہ ہمارے پولیس جوان مرنے کے بعد شہید ہیں، تو زندہ پولیس ہمارے غازی ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ شدید گرمی میں ڈیوٹی پر مامور سپاہی کو کوئی ٹھنڈے پانی کا سرکاری گیزر دستیاب نہیں ہوتا؟ اور نہ ہی سارا دن ڈیوٹی کرکے تھانے جانے پر لذیذ کھانے کا انتظار کرتی ہے، بلکہ شدید دھوپ اور ڈیوٹی کا تھکا مارا پولیس اہلکار جب آرام کرنے یا شفٹ کو تبدیل کرنے جاتا ہے تو وہاں وردی اتار کر اپنے صندوق میں رکھتا ہے یا دیوار پر لگے کسی کیل میں آویزاں کر دیتا ہے۔ کوئی عالی شان فرنیچر ان کو میسر نہیں ہوتا۔ وردی بدلنے کے بعد کھانے کا انتظام خود کرتا ہے۔ پھر کچھ اہلکاروں کی نائٹ ڈیوٹی لگ جاتی ہے۔
اور اگر کسی کی نہیں ہوتی تو وہ آرام کرنے کے غرض سے اپنے آرام گاہ میں جاتا ہے جہاں کوئی ایئر کنڈیشن کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔ مچھروں سے بچنے کیلئے مورٹین جلا کر، موسپل لوشن لگا کر پنکھے کے نیچے سو جاتے ہیں۔ باقی آپ مجھ سے زیادہ ہماری بجلی کے روٹین سے باخبر ہیں۔ آنکھ لگ جائے تو آدھی رات کو کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے پر نیند چھوڑ کر وردی پہن کر چاق و چوبند اپنا فرض نبھانے جانا پڑتا ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں پولیس کی تنخواہ 35، 30 ہزار ہوتی ہے۔ خیبر پختونخواہ پولیس کو راشن الاونس صرف 681 روپے ملتا ہے، جس میں گھی کا ڈبہ بھی نہیں آتا۔
وردی تو سرکاری ملتی ہے، مگر کچھ خاص نہیں ہوتی، اسلئے وردی کیلئے کپڑا خود لے کر اس کو پھر سلوانا پڑتا ہے، ساتھ میں پولیس کے جوتے اتنے مہنگے ہیں کہ 6، 5 ہزار سے کم میں نہیں ملتے۔ اس لئے اکثر اگر آپ خیال کریں تو ہمارے پولیس جوانوں کی وردیوں کارنگ شدید گرمیوں کی وجہ سے اُڑا ہوتا ہے، جوتے بھی کوئی خاص نہیں ہوتے۔ کیونکہ انکو سرکار کی طرف سے نہ تو بچوں کی فری تعلیم اور نہ ہی سرکاری کوارٹر کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ اتنے کم پیسوں میں یا تو وہ اپنے خرچے پورے کریگا یا اپنے گھروالوں کے۔ ہمیں پولیس اور عوام کے درمیان یہ دوری ختم کرنی ہوگی۔
خصوصاً ہمارے نوجوان اگر پولیس کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ملا کر تعاون کریں تو ہم ایک روادارانہ اور امن پسند معاشرے کو جنم دے سکتے ہیں۔ معاشرے کے بدعمل لوگوں کی نشاندی کرنے میں پولیس کا ساتھ دیں۔ اور اگر کسی پولیس اہلکار کی کاروائی سے تسلی نہ ہو، تو پولیس کے اعلی افسران کے دفتروں کے دروازے ہمارے لئے کھلے ہیں، ہم ان سے مل کر بات کر سکتے ہیں۔ آخر میں، میں آپ سب سے ایک تجویز شیئر کرنا چاہتا ہوں۔
اس جون جولائی کے مہینے میں جب آپ گھر سے نکلیں، تو اپنے ساتھ پانی کی ٹھنڈی بوتلیں رکھیں اور جہاں پولیس اہلکار دیکھیں ان کو دیں اور اپنی سیلفی لے کر اپنے سوشل میڈیا پر شئیر کریں تاکہ دوسرے لوگ بھی اس پر عمل کریں، پولیس سے محبت کا اظہار کریں اور پولیس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اور دہشتگردوں کو یہ پیغام دیں کہ ہمارے دل میں پولیس کیلئے محبت ہے اور پولیس ہمارا فخر ہے۔