Aurat
عورت
ہم اکثر اپنے خاندان والوں میں یہ بات سنتے رہتے ہیں کہ فلاں لڑکے کے لئے لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں، مگر نہیں مل رہی، کبھی سالوں تک کا وقت لگ جاتا ہے اور ملک کے مختلف شہروں تک چھان بین ہو جاتی ہیں، صرف ایک لڑکی ڈھونڈنے کے لئے۔ مگر دراصل 2021 کے رپورٹس کے مطابق پاکستان میں لڑکیوں کی تعداد 109.32 ملین یعنی تقریباً 11 کروڑ ہے۔ پھر آخر عورتوں کو اپنے بیٹوں کیلئے لڑکیاں کیوں نہیں ملتی؟
کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے کزن کیلئے رشتہ ڈھونڈنے کے سلسلے میں اپنے پھپھو کے ہمراہ کہیں جارہا تھا، کہ راستے میں ایک گرلز کالج کی چھٹی ہوگئی اور رشہو گیا۔ سکول کالج میں تو عموماً 300 سے 500 تعداد ہوتی ہے تو ایک دم اتنی تعداد جب روڈ پہ آجائے تو پھر آپ خود سوچھیں۔ سکول چاچا نے طالبات کو روڈ کراس کرانے کیلئے روڈ بلاک کر دی۔ میں نے گاڑی روک دی اور روڈ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔
اتنے میں میری پھپھو نے کہا کہ کمبخت لڑکیاں اتنی ہے کہ دیکھو روڈ بلاک کر دیا اور جب رشتہ کرنے کیلئے ڈھونڈھنے نکلتے ہیں تو پھر نہیں ملتی، تو میں نے بولا کہ کیوں نہیں ملتی پھپھو جی، مگر پھر آپ عورتیں ایسے چیک اپ کرتی ہیں کہ یہ موٹی ہے، پتلی ہے، ناک بڑی ہے، قد تھوڑا چھوٹا ہے، رنگ ٹھیک نہیں، دھیرے دھیرے چلتی ہے، چپ چپ ہے، بیمار لگ رہی ہے، عمر زیادہ ہے، لڑکی اچھی تھی مگر گھر پسند نہیں آیا، لڑکی تو ٹھیک ہے۔
لیکن اس کی امی پسند نہیں آئی۔ لڑکی کے پاس موبائل ہے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے کوئی رشتہ نہیں آرمی میں بھرتی ہو رہی ہو، تو پھر ایسی پرفیکٹ لڑکی ملنا مشکل نہیں نا ممکن ہی ہو جاتا ہے۔ تو پھپھو نے غصے سے کہا "بس چپ کرو، تم عورتوں کے معاملات نہیں جانتے۔ اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا اور میں نے سوچا کہ اس پر کچھ لکھوں۔ آج کل کے دور میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ جو نکاح میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ بن گئی ہے۔
اکثر جوان لڑکیاں ایسے برتاؤ اور رویوں سے جیسے میلے میں گاۓ بھینسوں کی طرح تیار ہوکر کسی سوداگر (لڑکے کی ماں بہن) کے سامنے پیش ہونا اور پھر انکی طرف سے عجیب و غریب نقص نکال کر رد ہو جانا پھر گلی محلے اور رشتہ دار عورتوں کے رشتہ نہ ہونے اور ماں باپ پر بوجھ بن کر بیٹھنے کے طعنے سن سن کر یا تو کوئی غلط قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں یا ایک ناجائز عمل خودکشی کا راستہ اختیار کر لیتی ہے یہ سوچ کر، کہ میں اور میرے گھر والے لوگوں کے طعنوں سے بچ جائیں۔
مگر پھر لوگ بد کرداری کا الزام لگا کر اس کی لاش کو بھی نہیں بخشتے۔ ہم کتنے ظالم ہیں نہ؟ اور پھر ہم ہی وہ لوگ ہیں کہ جو ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ میرے خیال میں بھارتی قابض افواج کے مظالم اس نوعیت کے نہیں ہونگے کہ کسی نے اس سے تنگ ہوکر خودکشی کر لی ہو، اور نہ کبھی ایسا سنا۔ دراصل جو بری عادت اور طریقہ ہم دوسروں کے لیے اپناتے ہیں۔
وہ اگر پھر ہمارے ساتھ ہوں تو ہمیں برا تو ضرور لگتا ہے، مگر احساس پھر بھی نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ آج جو عورتیں اپنے بیٹوں کے لیے لڑکیوں میں اتنے نقص نکال رہی ہیں، کل کو اگر انکی بیٹی میں کوئی نقص نکالے تو انکو برا نہیں لگے گا؟ یہ دنیا تو مکافاتِ عمل کی ایک چکی ہیں۔ اور پھر بحیثیت مسلمان اگر ہم دینِ اسلام کو دیکھے تو اسلام میں ایک نہیں چار شادیوں کی اجازت ہے اور بیواؤں سے شادی کی بھی تلقین کی گئی ہے۔
مگر اسکے ساتھ ہی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر میاں بیوی کا ایک ساتھ وقت نہیں گزر رہا تو دونوں خوشی سے الگ ہو کر اپنے لئیے دوسرا ہم سفر ڈھونڈ لے، مگر ہم کیا کرتے ہے؟ ساری عمر انا اور سماج کی خاطر ایک ساتھ میاں بیوی کے بندھن میں جڑے تو رہتے ہیں، مگر ایک دوسرے کا حق ادائیگی تو دور کہ ایک دوسرے سے بات بھی نہیں کرتے اور ٹینشن / ڈپریشن کے بیمار بن جاتے ہیں اور والدین کا یہ رویہ اولاد کو بری طرح متاثر کردیتا ہے۔
اور اگر طلاق ہو بھی جائے تو مرد حضرات دوبارہ دھوم دھام سے شادی کر لیتے ہیں اور عورت بیچاری ساری زندگی بیوا ہی رہتی ہے اور اس کے بھائی اور باپ غیرت اور انا کیوجہ سے اس کی دوسری شادی نہیں کرواتے، جو ایک طرف تو اسلام کے خلاف عمل ہے۔ جبکہ دوسری جانب انسانیت کے بھی خلاف ہے۔ نہ تو ہم مسلمان بننے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ ہی انسان بننے کی اور صرف کافروں کے مظالم ہی ہمیں نظر آتے ہیں۔
پھر وہی غیر مذہب لوگ ہی آکر ہمیں عورتوں کے حقوق کا درس دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان معاشرے میں عورتوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ لہذا اسلام میں عورتوں کے حقوق نہیں ہے، حالانکہ ہمارے عورتوں پر مظالم ہمارے اپنے ہی بنائے گئے رواجوں کیوجہ سے ہو رہے ہیں۔ جس کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔