Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (18)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (18)
انتخابات ہوچکے اور ان کے نتائج بھی آچکے۔ اس مملکت خداداد میں ہونے والے تمام انتخابات کی طرح ان کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ اگلے پانچ برس کا سیاسی انتظام اور اس کے خدوخال بہت حد تک ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔
یہ خطہ ارض جو پاکستان کے نام سے معنون ہے، اپنے طور پر سیاسی اور میکرو معاشی انتظام کی کچھ باقاعدہ تاریخ نہیں رکھتا۔ یہ علاقہ تاریخی طور پر، زیادہ تر، پرصغیر کے کم آباد حصے پر محیط تھا۔ ضرور ہے کہ لاہور، ملتان، ٹھٹھہ اور پشاور وغیرہ کا نام تاریخ میں بار بار آتا ہے مگر پچھلے ہزار سالوں میں لاہور کے علاوہ باقی شہروں کی اہمیت مقامی راجواڑوں کے صدر مقام یا شمال مغرب سے آنے والے حکمرانوں یا طالع آزماوں کی گزرگاہ کی وجہ سے تھی۔
انگریز کے وقت میں مشرقی اور وسطی پنجاب میں قحط اور افغان مہمات اور بعد ازاں عالمی جنگوں کے لئے افراد کی بھرتی کے لئے ان علاقوں میں کچھ تبدیلی آنا شروع ہوئی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں دریائے بیاس / ستلج سے دریائے جہلم مشرقی کنارے کے درمیان نہری نظام سے کینال کالونیوں کی آبادکاری ہوئی اور بہت سے نئے شہر فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ساہیوال وغیرہ اپنی ترقی یافتہ صورت میں وجود میں آئے۔
یاد رہے کہ برطانوی انتظام میں 1933 تک سندھ کا علاقہ بمبئی صوبے کا حصہ تھا اور وہاں کے لوگوں کا سفری اور معاشی رحجان بھی اسی طرف تھا۔ سندھ اور کراچی کی خوشحال فیملیوں کے بچوں کے کالج، یونیورسٹیاں اور کاروبار بھارتی گجرات سے وابستہ تھے اور سندھ اور پنجاب کے درمیان ریاست بہاولپور کے ہونے کی وجہ سے صوبائی ربط کچھ بہت زیادہ نہیں تھا۔ سندھ کی زرعی اور کراچی کی محدود کاروباری پیداوار کا ہدف بھی راجستھان اور گجرات کے رخ پر تھا۔
پنجاب، متحدہ ہندوستان کا اناج گھر تھا۔ یہاں سے سارے کاروباری راستے اور تعلقات بشمول دہلی شمالی ہندوستان سے تھے اور دریائے نربدا کے پار کے جنوبی حصے سے کاروباری تعلقات اور ثقافتی ربط زیادہ نہیں تھا۔ لاہور، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کی صنعت و حرفت کی منڈی بھی شمالی ہندوستان ہی میں پائی جاتی تھی۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جنگی ساز و سامان کی نقل و حرکت میں پہلے سے موجود (افغانستان / بلوچستان / روس کے مقابلے کے لئے) ویسٹرن ریلوے بہت اہمیت اختیار کر گئی تھی اور پنڈی کی چھاؤنی اور کراچی کی بندرگاہ بیسویں صدی کے شروع سے پہلے ہی برطانوی فوجی سرمایہ کاری کا مرکز بن گئیں۔ بندرگاہ کا ایسٹ وہارف بیسویں صدی کے آغاز ہی سے کراچی سے سندھ کی کپاس کی برآمد کا مرکز بن گیا تھا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں پنڈی کے نواح کے علاقے مثلا" چکوال، اٹک اور جہلم برطانوی ہند کی افواج میں افرادی قوت کا بیشتر حصہ پورا کر رہے تھے۔ جب کہ کراچی میں ویسٹ وہارف کی تکمیل کے بعد بہت سی فوج کراچی سے نہر سویز کے راستے یورپ اور مشرق وسطٰی بھیجی گئی۔
اس پاستان طرازی کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ تقسیم سے پیشتر، موجودہ پاکستان کا علاقہ اقتصادی طور پر دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک پنجاب اور پختونخواہ کی بیلٹ جس کی زیادہ تر زرعی اور حرفت کی پیداوار افغانستان، سرحد اور شمالی ہند کو جاتی تھی۔ دوسرا سندھ اور کسی حد برٹش بلوچستان جس کے اقتصادی راستے زرعی اجناس کی برآمد اور گجرات کی صنعت کے خام مال سے منسلک تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ تقسیم کے وقت مغربی پاکستان میں کوئی بڑا کارخانہ موجود نہیں تھا اور برآمدات میں کپاس یا کبھی کبھار گندم کی بمپر فصل کا کچھ حصہ۔ افرادی قوت کی برآمد زیادہ تر برطانوی افواج کی وجہ سے تھی۔ اور یہ خطہ اپنی قومی پیداوار کے حوالے سے زرعی پیداوار اور کچھ معدنیاتی خام مال کے علاوہ شاید ہی کچھ پیدا کرتا تھا۔
اسے بدقسمتی کا تسلسل کہئے یا کچھ اور کہ تقسیم کے بعد ہماری زرمبادلہ کی قریب تمام تر ضروریات 1970 تک ہمارے مشرقی حصے کی ذمہ داری رہی۔ 1971 میں جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو ہمارے پاس زرمبادلہ حاصل کرنے کے ذرائع تقریبا" مفقود ہو گئے۔ 1972 اور 1973 کے سیلابوں نے زرعی پیداوار تباہ کردی اور رہتی سہتی کسر بھٹو صاحب کی نیشلائزیشن نے نکال دی۔ اس بحران سے کسی حد تک نجات دوبئی کے منظر نامے پر ابھرنے سے ہوئی۔ بھٹو صاحب کے اسلامی دنیا کی طرف اچھے تعلقات کے رحجان نے سعودی عرب اور خلیج میں ہماری نیم تربیت یافتہ افرادی قوت کی برآمد کے مواقع پیدا ہوئے جس کے مثبت اثرات آج تک ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ کو سہارا دئیے ہوئے ہیں۔
1954 کے پی آئی ڈی سی کے سہارے لگے ہوئے بنیادی کارخانوں کے طفیل ہماری برآمدات اسی کی دہائی میں خام روئی سے نکل کر دھاگے اور خام کپڑے تک آگئیں۔ زرعی اجناس، خام کیمیکل، خام دھاتوں، کچھ ہاتھ کے بنے قالین، وزیر آباد کی کٹلری / سرجیکل آلات اور سیالکوٹ کا کھیل کا سامان ہماری نوے فیصد برآمدات کا محور ٹھہرے۔ یورپ میں چمڑے کی ٹینریز، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بند ہوئیں تو کچھ عرصے کے ہمارا چمڑے کی برآمد کا کام بھی چلا۔ 1984 سے 2015 تک ہماری سٹیل مل بھی چلی مگر بری مینجمنٹ اور یونین سازی نے اسے زیادہ تر نقصان ہی میں رکھا اور بنیادی صنعتی دھاتی خام مال یعنی لوہا / تانبا/ ایلومینیم ہمیں آج تک درآمد ہی کرنا پڑتا ہے۔
مزید یہ ہوا کہ بھارت سے تجارت کے راستوں میں 1962 کی ہند چینی جنگ سے ہی رخنہ پڑنے لگا اور 1965 کے بعد سے تو ہماری 3300 کلومیٹر سرحد سے اشیا اور افرادی قوت کا آنا جانا تقریبا" رکا ہوا ہے۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور لاہور کی صنعت کو اپنے خام مال اور درآمد / برآمد کے لئے اپنا رخ کراچی کی طرف موڑنا پڑا۔ 1979 کے قریب ایران کی نو سو کلومیٹر سرحد اور آر سی ڈی شاہراہ سے ترکی اور یورپ کا رابطہ بھی گیا اور افغانستان کی سرحد کے 2600 کلومیٹر جہاد کی نذر ہوگئے۔ اور جو کچھ باقی ممکن تھا وہ ہم نے 2006 کے فری چائنہ ٹریڈ ایگریمنٹ میں گنوا دیا۔
آنے والی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج قریب 150 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کا حصول ہے جس کے بغیر نئی اور موجود صنعت کے لئے ضروری خام مال، مشینری اور اس کے چلانے کو بجلی/ گیس/ پیٹرول کا حصول ممکن نہیں اور نہ ہی قرض کی ادائیگی۔
موجودہ صلاحیت اور حالات میں کچھ 35 ارب ڈالر کی ترسیلات زر، 30 ارب ڈالر کی اشیا اور 5 سے 10 ارب کی آئی ٹی ایکسپورٹ کے پوٹینشل کے حساب سے اچھے سے اچھے حالات میں بھی 75 ارب ڈالر سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتا۔
سوال یہی ہے کہ زرمبادلہ 75 ارب کے پوٹینشل سے 150 ارب پر کیسے جائے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں کچھ پانچ سے دس ارب مزید کی گنجائش ہے جو فی الحال ہنڈی کے ذریعے آتا ہے۔ شاید اگلے تین سال میں مارکیٹ سے زائد پریمیم دے کر اور چھوٹی ترسیلات میں آسانی اور زیرو کاسٹ کرکے سٹیٹ بینک یہ دس ارب ڈالر فارمل مارکیٹ میں لا سکتا ہے۔
کم از کم 15 ارب ڈالر کی مزید ایکسپورٹ آئی ٹی سیکٹر سے ممکن ہے مگر اس میں ہماری ترسیلات زر کا نظام اور یورپ / امریکہ سے ای کامرس کے ربط کی کمی آڑے آتی ہے۔ یہ معاملہ سیاسی بھی ہے اور انتظامی بھی۔
باقی 50 ارب اشیا کی درآمد سے آنے ہیں جس کے حصول کے لئے نہ صرف صنعتوں اور صنعتی پیداوار میں اضافہ درکار ہے بلکہ ویلیو ایڈیشن، مال کی ترسیل کا انفراسٹرکچر، مارکیٹ تک رسائی اور علاقائی ویلیو چین میں پاکستان کی صنعت کی integration بھی درکار ہے۔ علاقائی سیاست اور موجودہ صنعت کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سب کچھ ناممکن تو لگتا ہے مگر شاید اب احتیاط کی راہ چھوڑ کر کچھ بہت بڑے فیصلے کرنے کا وقت ہے۔ چین نے ثابت کیا ہے کہ سیاسی اختلافات اور سیکورٹی خدشات کے باوجود روس، امریکہ، یورپ اور بھارت سے بیک وقت اچھے تجارتی اور صنعتی تعلقات ممکن ہیں۔ چین کا بھارت کے ساتھ تبت کا تنازعہ ہماری کشمیر پر پوزیشن سے مختلف نہیں۔ ان کی سرحدی جھڑپیں بھی ہمارے نزاع سے زائد ہوتی ہیں مگر نہ تجارت رکتی ہے، نہ لوگوں کا آنا جانا اور نہ سرمایہ کاری۔ ہمیں بھارت کی منڈیوں تک رسائی چاہئیے تاکہ ادویات، خام دھاتوں /کیمیکلز/ میڈیکل مشینری اور اشیائے خوردنی میں قیمتوں میں اعتدال رہے۔
بھارت کو ہمارے راستے ایران اور تاجکستان سے گیس چاہئے۔ ہمیں ایران سے سستا لوہا چاہئیے۔ ہمیں بھارت کی تیس لاکھ گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ چین میں پرزے بنانے کا آرڈر چاہئیے۔ ہمیں بن قاسم پورٹ پر نئی ریفائنریز، نیفتھا کریکر اور جدید سٹیل مل کے لئے سرمایہ کاری چاہئیے جس کے لئےشاید وہاں سٹیل مل کی خالی زمین کے پندرہ ہزار ایکڑ کو پلگ اینڈ پلے پارک کی صورت میں سرمایہ کاروں کو ابتدائی طور پر مفت دینا پڑے۔ بن قاسم اور کراچی پورٹ میں جہازوں کی محدود docking capacity کا علاج کرنا ہے اور ریل کی upstream مال گاڑی کو چلانا ہے۔ دنیا کے ساتھ اپنا image انتہا پسندی سے موڑ کر بین الاقوامی عزائم سے پاک، کم از کم بنگلہ دیش، ترکی، ملائشیا یا عرب امارات جیسے معتدل ممالک کی صف میں لانا ہے تاکہ دنیا کی منڈیاں ہمارے مال اور خدمات کے لئے کھل سکیں۔
سبب سے بڑھ کر ہماری قوم کا پیسے کمانے کا دھیان پلاٹ، پلازے، ڈالر، گاڑیوں اور باہر سے سامان منگوا کر بیچنے سے بھاری ٹیکسوں کے ذریعے سے ہٹا کر اس دریا کا دھارا ایکسپورٹ کی طرف موڑنا ہے۔
پنگھٹ کی یہ ڈگر کٹھن ضرور ہے مگر پانی بھر کر لائے بغیر کہیں یہ قوم پیاسی نہ مر جائے۔