Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamid Ateeq Sarwar
  4. Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (17)

Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (17)

جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (17)

آج کل ایف بی آر کی اصلاحات کا بہت چرچا ہے۔ معلوم ہوتا کہ حکومتی وسائل کی کمی کی بنیادی وجہ ایف بی آر کے ہیڈ آفس کا انتظامی ڈھانچہ ہے۔ چنانچہ شنید ہے ایف بی آر کو تین سے چار خود مختار اداروں میں بانٹ دیا جائے۔ ایک حصہ قوانین، پالیسی اور قواعد تشکیل دے، ایک حصہ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز کو جمع کرنے کا انتظام کرے اور ایک حصہ درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی لے اور سمگلنگ کی روک تھام کرے۔ اور یہ تینوں ادارے الگ الگ نادرا کے ساتھ مل کر ڈیٹا اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس چوری کا خاتمہ کریں۔

پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کوئی 105 کھرب روپوں کی مالیت کی ہے۔ اگر اس سال کا ایف بی آر کا ہدف حاصل بھی ہوجائے تو اس سے وصول شدہ 9400 ارب روپے مجموعی قومی پیداوار کا صرف۔ ساڑھے آٹھ فیصد رہنے کا امکان ہے۔ جبکہ ہمارے قومی قرضے کے سود وغیرہ کی ادائیگی ہی قومی پیداوار کے نو سے ساڑھے نو فیصد کے قریب ہے۔

اس پر طرہ یہ کہ وفاقی حکومت - جسے قرض کے علاوہ دفاع، وفاقی حکومت، بجلی، گیس، پٹرول، سرکاری درآمدات کے اخراجات کرنا ہیں - اس ٹیکس کا قریب چالیس فیصد یعنی کوئی 3700 ارب روپے ہی مل پائیں گے۔ باقی اخراجات میں سے کچھ 3000 ارب کے نان ٹیکس ریونیو(پٹرولیم لیوی، منافع وغیرہ) کی مد سے آجائے گا اور باقی 7000 ارب کے لئے مزید قرضوں کا بوجھ۔ ان حالات میں نہ تو ترقی کی پلاننگ ممکن ہے، نہ غربت کا علاج اور نہ ملکی خودمختاری کا تحفظ۔

یوں نہیں کہ ساری دنیا میں صرف ہمارا ہی ملک اس قسم کے حالات سے دوچار ہے۔ زمبابوے، وینزویلا وغیرہ میں بھی یہی کچھ ہوتا رہتا ہے مگر ہر ملک میں دس بری چیزوں کے ساتھ کوئی ایک دو strengths بھی ہیں جیسے وینزویلا کا تیل یا زمبابوے کے معدنی ذخائر۔ مگر ہمارے ہاں شاید کوئی بھیredeeming feature نہیں۔ الٹا hostile ہمسائے، برا ملکی image، غربت اور آبادی بڑھنے کی غیر معمولی رفتار ہمیں مزید نیچے کو دھکیلے دیتی ہے۔

طارق عزیز مرحوم کے نیلام گھر کی زبان میں کہیں تو ہماری governance میں مزید غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہماری قومی بقا اور خودمختاری 75 سال کی mismanagement سے اب گہری کھائی کے کنارے کے اتنے نزدیک ہے کہ نت نئے تجربوں اور half baked ideas سے ممکنہ نقصانات ہمیں کسی لمبی اور گہری مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔ اس لئے اب اور اس کے بعد ہونے والے تمام فیصلوں میں محتاط رہنا، ان دیکھی راہوں پر چھلانگ لگانے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ ایسے ہی جیسے اسپتال میں پڑے مریض کی جان کی سلامتی اس کو اٹھا کر دوڑ لگوانے سے زیادہ اہم ہوتی ہے (دوڑ لگوانے کی کوشش زیادہ تر جان لیوا ہی ثابت ہوگی)۔

مشکل اور برے حالات میں فیصلہ سازی اور بھی مشکل ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک پچھلے سو برس میں برے معاشی حالات سے معجزاتی فیصلوں سے جانبر نہیں ہوا۔ مودی حکومت کی نومبر 2016 کی نوٹ بندی کا فیصلہ تبھی ممکن تھا جب بھارت کی اوسط ترقی آٹھ سے دس فیصد کو چھو رہی تھی اور اس اقدام سے لگنے والا وقتی دو فیصد کا گھاٹا برداشت کرنا بہت مشکل ثابت نہیں ہوا۔ مگر بھارت یہ قدم ایک فیصد ترقی کی رفتار میں اٹھاتا تو شاید معاشی طور پر دس سال تک نہ سنبھل پاتا۔

پاکستان، جہاں ہم برسوں سے ترقی کے جمود، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور وسائل کی کمی کا شکار ہیں، شاید اس وقت کسی بھی risky پالیسی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایسے مشکل حالات میں ہر قدم نہایت احتیاط کا متقاضی ہے۔ ایسے میں حکومتی اقدامات کے لئے بہترین مشعل راہ ملتے جلتے ممالک کے کامیاب اصلاحاتی تجربے ہوتے ہیں۔ یہ learning by imitation بہت سارے ممالک کو معاشی تباہی کے کنارے سے واپس لائی ہے۔ بھارت کی گزشتہ تیس برس کی معاشی اصلاحات ہوں، سابق یورپی روسی ریاستوں کی معاشی بہتری کی بات ہو یا ویت نام اور بنگلہ دیش کی ترقی کا ذکر، ہر ایک میں کسی معجزاتی تبدیلی کی بجائے کامیاب بین الاقوامی معاشی اقدامات کی مقامی adaptation ہی کامیابی کا سبب بنی ہے۔ وقت کے ساتھ ان best international practices میں تبدیلی ضرور آتی ہے مگر ماضی قریب کے بہتر بین الاقوامی تجربات کی نقل نسبتا" محفوظ اور کامیاب لائحہ عمل ہوتا ہے۔

اب ٹیکس اصلاحات کی طرف واپس آتے ہیں۔ پوچھے جانے والا سوال یہ ہے کہ کن وجوہات کی بنا پر ہمارے جیسی معیشت رکھنے والے ملکوں کی نسبت ہمارا ٹیکس جی ڈی پی تناسب، کوئی پانچ سے چھ فیصد کم کیوں ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کا راستہ کیا ہے؟ مقدار کے علاوہ ہمارے ٹیکسوں کا معیار اور وصولی کا طریقہ، کامیاب ممالک کی نسبت کیسا ہے اور اس میں بہتری کیسے ممکن ہے کہ ٹیکس کچھ ایسے جمع کیا جائے کہ کاروبار اور ترقی کی راہ مسدود نہ ہو؟

پاکستان کے ٹیکس نظام پر پچھلے بیس سال میں کافی ریسرچ ہو چکی ہے اور محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں کچھ 2000 ارب کے ٹیکس کی کمی مختلف طبقوں اور اشخاص کو دی گئی ٹیکس کی قانونی چھوٹ کی وجہ سے ہے۔ کچھ 3000 ارب کا نقصان سیلز ٹیکس کی وصولی کے ڈھانچے کی کمزوری (کیونکہ حکومت اس ڈھانچے میں investment کرنے سے گریزاں رہتی ہے) کی وجہ سے ہے اور اسی طرح کا enforcement gap قریب 3000 ارب کا انکم ٹیکس وصول نہیں ہونے دیتا۔ کچھ 500 ارب کا نقصان زرعی آمدنی پر صوبائی ٹیکس کی عدم عملداری، 300 ارب کے صوبائی urban immovable property tax پوٹینشل کی عدم وصولی اور اشیا اور خدمات کے ٹیکس کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں fragmentation سے 1000 ارب کے نقصان کا تخمینہ بھی موجود ہے۔ دوسری طرف بڑی کمپنیوں پر ٹیکسوں کی regional highest rate نئی سرمایہ کاری کو روکے ہوئے ہے۔

ان مسائل کو دیکھتے ہوئے خرابی کا پہلا حل ٹیکسوں کے جمع کرنے کے نظام کو ملکی بنیاد پر اکٹھا کرنے میں ہے اور ہم اس کے منافی وفاقی نظام کی fragmentation کی طرف چل پڑے ہیں۔

جرمنی میں تمام صوبائی، بلدیاتی اور وفاقی ٹیکسوں کو اکٹھا کرنے کا صرف ایک ادارہ ہے ہرچند کہ ٹیکس لگانے کا اختیار حکومت کے تینوں طبقوں کی مقننہ کے علیحدہ علیحدہ اختیار میں ہے۔ بھارت نے 2005 سے شروع کرکے 2017 میں آئین میں ترمیم کرکے goods and services tax کا integrated نظام بنایا جس سے وصولیوں میں جی ڈی پی کے قریب تین فیصد کا اضافہ ہوا۔ برطانیہ نے اپنی 500 سالہ تاریخ رکھنے والی Royal Customs Service کو 2005 میں اندرونی ٹیکسوں کے نظام میں ضم کیا اور ہم ہیں کہ اس نظام کو مزید تقسیم در تقسیم کی جانب لے جانے کو مستعد ہیں۔

میکرو اکنامک معاملات کی بہت percision کے ساتھ پیش گوئی تو نہیں کی جاسکتی اور یقینا" ارباب اختیارکے پاس یہ اقدامات کرنے کے پیچھے کچھ ہوم ورک موجود، ہوگا مگر یہ ضرور، کہا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی تجربات کی روشنی میں ایسے اقدامات کی ترجیح اس زمانے میں ممکن ہے جب آپ ٹیکس وصولیوں میں اصلاحات کی stable phase میں آچکے ہوں جب کہ اعداد و شمار یہ بتا رہے ہیں کہ ہماری ملکی بیلنس شیٹ bankruptcy کی نشاندہی کر رہی ہے۔ ٹیکسوں کے معیار اور مقدار میں اضافہ ادارہ جاتی تقسیم کی بجائے فی الحال پالیسی اور اس کے نفاذ میں unification اور integration کا متقاضی ہے۔ بہت سا کام باقی ہے جو ہمیں اس adhoc اور distortive ڈھانچے کو ایک منصفانہ، آسان اور کاروبار دوست نظام بنانے کے لئے درکار ہے جس کے لئے فیصلہ سازوں کو سر جوڑ بیٹھنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کی نیک نیتی میں شبہ نہیں مگر نازک ترین حالات میں فیصلے کرتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہئیے کہ ان جیسے اقدامات کے فائدے کی کوئی بھی بین الاقوامی مثال ماضی قریب یا بعید میں ہے بھی یا نہیں۔ یہ نہ ہو کہ ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے کا علاج ہم دماغ کی سرجری سے کر رہے ہوں۔

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa