Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (16)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (16)
پسندیدہ کو خدائی صفات کا حامل قرار دینا اور ناپسند کو مطعون کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہمارے ہاں عوامی سطح پر موجود افراد یا مسیحا ہیں یا دجال۔ جبرائیل یا شیطان مردود۔ سیموئیل بیکٹ کے waiting for godot کے ولادی میر اور استروگان کی طرح ہماری نظریں ہمیشہ کسی آنے والے کو تلاشتی رہتی ہیں۔ کوئی ایسا فرد واحد جو سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔ دوسری جانب ہمارے پاس نفرت کرنے کے لئے لوگوں کی ایک لمبی لسٹ بھی موجود ہے۔ کتنے ہی زندہ اور مردہ لوگ ایسے ہیں جنہیں ہم اپنی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور جن کا سوچ کر ہمارا خون ہر وقت کھولتا رہتا ہے۔ نفسیات کی طب میں ایسے روپے کو Black & white thinking کہا جاتا ہے اور اس کا شمار نیم پاگل پن کی علامات میں ہوتا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم تمام قومی فیصلوں کو اکثر و بیشتر، حاکم وقت کا ذاتی فیصلہ گردانتے ہیں اور نتیجتاََ اس کی خرابی کا تمام تر بوجھ بھی اس سامنے نظر آنے والے فرد پر ڈال دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید وہ دیومالائی داستانیں اور کہانیاں ہیں جن میں نیک بادشاہوں کو سبز خرقہ پوش بزرگ اور غیبی امداد ملتی رہتی ہے اور عیاش حکمران کو چالاک وزیر اور طاغوتی کمک۔ چونکہ ہماری کہانیوں میں رعایا کے حالات صرف بادشاہ کے نیک و بد ہونے پر منحصر ہیں اسی کارن ہماری حقیقی زندگی میں بھی ہماری مشکل کشائی کسی دیومالائی ہیرو کی بدولت ہی ممکن ہے۔
حقیقت، بہرحال ہمارے ان اندازوں سے بے حد مختلف ہے۔ ہمارے بہت بااختیار نظر آنے والے لوگ بھی تمام تر فیصلے خود نہیں کر رہے ہوتے۔ اگر زیادہ درست طریقے سے دیکھا جائے تو ہمارے ملک کی حکمرانی میں کئی طبقات کی عملداری ہے اور تمام فیصلے اس حکمران اشرافیہ کے درمیان کشمکش یا تعاون سے انجام پاتے ہیں۔ اس اشرافیہ کی کوئی خاص ٹریڈ یونین نہیں اور حالات کے مطابق ان میں اتفاق اور اختلاف کی صورت بدلتی رہتی ہے۔ قریب سے دیکھیں تو اس طبقے کی سیاستدانوں، عدلیہ، عسکری قیادت، بیوروکریسی، صنعت کاروں، تاجروں، مذہبی رہنماؤں، صحافیوں، امرا اور چنیدہ ٹیکنوکریٹس میں classification بھی کچھ خاص فائدہ مند نہیں کہ ہر طبقہ ہر وقت relevant نہیں رہتا۔
پاکستان کی لیڈر شپ میں عساکر کا final arbiter ہونا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں مگر یہ طبقہ بھی ہر وقت اور ہر کام کو micromanage نہیں کر رہا ہوتا۔ اپنی نوعیت میں unity of command کا متقاضی یہ حکومتی جزو البتہ اپنی قیادت کے نظم کا پابند رہتا ہے اور اس قیادت کے بدلنے کے نسبتاََ طے شدہ طریقے کی وجہ سے اس کا طرز عمل شخصی کی بجائے ادارہ جاتی رہتا ہے۔ پالیسیوں میں اس کا کردار معدودے چند خارجہ اور داخلہ امور کے علاوہ زیادہ تر نہ ہونے کے برابر رہتا ہے۔
ایوب، ضیا اور مشرف کے زمانے میں بھی فیصلہ سازی فوج کی زیادہ تر قیادت سے دور ہی رہتی تھی اور اختیار صدر مملکت، ان کے قریبی رفقا، امرا، ٹیکنو کریٹس اور چند پسندیدہ سیاستدانوں تک محدود رہتا تھا۔ اس مطلق اقتدار میں بھی nuisance رکھنے والے ہر طبقے کو خوش رکھنے یا ان سے دشمنی avoid کرنے کا اہتمام جاری رکھا جاتا تھا۔
سیاسی ادوار میں بھی اقتدار اعلی وزیر اعظم کے قریبی رفقا، چنیدہ ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریسی کے کچھ وفادار اور کارگر سمجھنے جانے والے لوگوں تک محدود رہتا ہے مگر اس عمل میں انہیں عدلیہ، اعلی عسکری قیادت، مذہبی پریشر گروپس، اتحادیوں، طبقہ امرا، تنگ کرنے والے صحافیوں اور کسی حد تک عوام میں پھیلتی مایوسی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
اس سارے اہتمام کی وجہ سے تمام تر فیصلہ سازی خیالی پوشاک سے شروع ہو کر کٹ کٹا کر اور سلنے کے بعد لنگوٹ کی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے جس سے تن ڈھانپنا تو کجا، ستر پوشی بھی مشکل ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ حکومت درست اور قابل عمل فیصلے نہیں کر سکتی بلکہ یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارا نظام حکومت، افراد اور ضابطوں کے تحت کچھ ایسے ترتیب پا گیا ہے کہ جس سے عوام کی بہتری کے کام کرنے بے حد مشکل ہو چکے ہیں۔
ایسا نہیں کہ ملتے جلتے نظام کے تحت بھارت اور بنگلہ دیش میں اچھی فیصلہ سازی نہیں ہو رہی مگر ہمیں یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ ان دونوں علاقوں میں تعلیم، سیاست اور کاروبار کی خواندگی کا معیار اور عرصہ ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ جن علاقوں پر موجودہ پاکستان مشتمل ہے اس میں کے پی اور سندھ کی صوبائی حکومت کا قیام 1937 میں ہوا تھا۔ بلوچستان کی پہلی صوبائی حکومت 1972 میں بنی اور پنجاب کے زیادہ تر حصوں کی آبادکاری 1908 کے بعد کے نہری نظام سے ہوئی جس میں 1947 کے انتقال آبادی کے بعد ہندوستان کے کافی سارے کم خواندہ مسلمان ادھر کو آگئے اور پنجاب اور سندھ کے تعلیم یافتہ اور کامیاب کاروباری ہندو، بھارت سدھار گئے۔ مطلب یہ کہ تعلیم، امور سلطنت اور کاروبار میں پاکستان کی وراثت خاصی معمولی تھی اور ہمارا موجودہ معیار زندگی ہماری endowment poverty کے باوجود، خاصی مناسب ترقی کی دلیل ہے۔
ہوا یہ ہے کہ انگریز کے تربیت یافتہ لوگوں کی ریٹائرمنٹ یا نسبتاََ زیادہ پڑھے لکھے اردو سپیکنگ لوگوں کی حکومتی کام میں بڑھتی ہوئی irrelevance (دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی، سندھی نیشنلزم اور مہاجر سیاست) کے بعد ہمارا حکومتی نظام اپنے نسق میں غیر منفعل ہوتا چلا گیا۔ سیاسی حکومتوں کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے مختصر مدت کے فیصلوں نے طویل مدت کی منصوبہ بندی کو نقصان پہنچایا اور اشرافیہ کی آپس کی لڑائی میں پالیسیوں کے تسلسل کو "ہر کہ آمد، عمارت نو ساخت" کے مصداق ناممکن بنا دیا۔ نوکر شاہی بھی تیل کی دھار کو دیکھتے ہوئے شاہ کے مزاج کو خوب آنے والی کچھ چیزوں پر جمع خرچ پر راضی ہوئی اور امور سلطنت اور ان کو احسن طریقے سے نمٹانے کی صلاحیت کم اثر ہوتی چلی گئی۔
پچھلی تین حکومتوں میں ہر ایک یہ چاہتی تھی کہ ملک ترقی کرے، مہنگائی قابو میں آئے اور لوگ خوشحال ہوں۔ مگر ارادے اور نیت کے باوجود حالات مشکل سے مشکل ہوتے چلے گئے۔ بجلی کے کارخانے لگائے تو سوچا کہ بجلی کی دستیابی سے صنعتی ترقی ہوگی اور منافع سے قرض کی ادائیگی بھی ہو جائے گی۔ جب تک کارخانے لگے، پہلے کووڈ، بین الاقوامی کساد بازاری اور باہمی کشمکش سے 40 ہزار میگا واٹ کی پیداوار پر طلب 20 ہزار کی رہ گئی اور قرض اور قسط کی ادائیگی سر پر۔
ہر حکومت میں یہ فیصلہ ہوا کہ سب سے پورا ٹیکس لیں گے۔ پہلے اشرافیہ نے اس کام کے لئے کچھ استثنا اور تین ایمنسٹی سکیمیں لیں، پھر تاجروں نے ہڑتال اور دباو سے اپنے لئے شناختی کارڈ کی معافی اور فکسڈ ٹیکس سکیم لی، پھر بڑے زمینداروں نے زرعی ٹیکس دینے سے انکار کیا اور بینکوں اور صنعتکاروں نے ٹیکس کا بوجھ قیمتوں میں جمع کر دیا۔ نتیجہ وہی سو روپے کی قومی آمدن میں دس روپے کا ٹیکس۔ الزام حکمران اور ایف بی آر پر اور سختی اور عذاب مقہور متوسط اور غریب طبقے پر۔
کوئی بھی حکومتی فیصلہ لے لیں۔ ہر حکومت کے سب کے سب ارادے نیک اور عزم بہترین ہیں مگر لوگوں تک پہنچنے تک پالیسی کا سوٹ، لنگوٹ بن چکا ہوتا ہے۔ یہی وہ نروس سسٹم کا بریک ڈاؤن ہے جس سے ہماری معیشت مفلوج ہوئی جاتی ہے۔ 2019 میں سوچا کہ موبائل فون پاکستان میں بننے چاہئیں کہ ہر سال 4 کروڑ فون امپورٹ ہوتے ہیں۔ ٹیرف کا استعمال کرکے سب کو (سوائے ایپل کے) پاکستان لے آئے۔ سامسنگ نے بھی lucky گروپ کے ساتھ مل کر کارخانہ لگا لیا۔ دوسرے مرحلے پر بات اسمبلی اور پیکنگ سے نکل کر پی سی بورڈ، ٹچ سکرین اور برآمدات کو جانا تھی۔ مگر بات وہیں اسمبلی پر رکی رہی کہ فیصلہ ساز پرانی بات چھوڑ کر کسی نئی پالیسی کی طرف نکل گئے۔ یہی حال گاڑیوں کا ہوا کہ رعایات دے کر کارخانے تو لگ گئے مگر localisation اور export کی وہی کچھوے سی رفتار۔
جب تک پالیسی بنا کر اسے قابل عمل نہیں بنائیں گے، اس پر پہرہ نہیں دیں گے اور اس کے ارتقائی سفر کو آگے نہیں لے کر جائیں گے، بات نہیں بنے گی۔ جہاں ہر وزیر اور سیکرٹری ہر کام کو یوں دیکھنا شروع کرے کہ جیسے اب تک ہونے والا، کام پتھر کے زمانے کی یادگار ہے اور اسے ملک و ملت کی تعمیر نئے سرے سے کرنی ہے، تو وسائل کے بے جا اور غیر منتج ضیاع کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اچھی کمپنیاں اور حکومتیں، پالیسی اور کام کے تسلسل کے طریقے وضع کرتی ہیں۔ ہر سال دو سال کے بعد پچھلے کئے گئے کاموں / پالیسی کے اثرات کا جائزہ لیتی ہیں اور ان پالیسیوں کے بناتے وقت، نتائج کے ابتدائی تخمینے کو اصل نتائج سے ملا کر اگلی فیصلہ سازی کے عمل اور تخمینوں میں درستگی کرتی ہیں۔ موجودہ صورتحال فیصلہ سازی کو estimates اور anecdotes تک محدود کئے ہوئے ہے جو کسی بھی صورت 25 کروڑ لوگوں کی معیشت اور دیگر اجتماعی نظم کو نہیں چلا سکتی۔ آگے کو جانا ہے تو لے جانے والی گاڑی کو ٹھیک کرنا پڑے گا ورنہ یہیں کھڑے رہیں گے۔