Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (13)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (13)
پچھلے دنوں چاند پر ترنگا لہرانے والے ہمارے ہمسائے سے یاد آیا کہ 19 جولائی 1969 کو جب نیل آرمسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والا تھا تو اس سے کچھ دیر پہلے بھارت کے وقت کے مطابق رات ساڑھے آٹھ بجے وزیراعظم اندرا گاندھی، ٹی وی پر بھارت کے چودہ سب سے بڑے بینکوں کو قومیائے جانے کا اعلان کررہی تھیں۔ یہ بات انہوں نے اپنے نائب وزیراعظم اور وزیر خرانہ مرار جی ڈیسائی سے بھی چھپا کر رکھی جس پر مرار جی ڈیسائی (وزیراعظم 1977) نے گلہ کیا کہ کیا مجھے آپ کلرک سمجھتی ہیں؟ ان دنوں اس بات کا مغربی پریس میں اس سوشلسٹ اقدام کا خوب مذاق اڑایا گیا۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہمسائے کا 75 سالہ سفر ہم سے زیادہ کٹھن گزرا ہے۔ آزادی کے پہلے تیس سال نہرو، پٹیل اور اندراگاندھی کا سوشلزم کھا گیا۔ بھٹو صاحب کی 1974 کی بینک نیشلائزیشن سے پانچ سال پہلے ہی اندرا بھارت میں یہ کارنامہ انجام دے چکی تھیں۔ ہم نے تو پھر بائیس خاندانوں ہی کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر بھارت میں نہرو نے شروع ہی سےلائسنس راج، تجارت پر حکومت کا گلا دبانے والے کنٹرول، خام مال اور توانائی کی صنعتوں کو قومیانے اور سخت لیبر قوانین کے نفاذ سے بڑے صنعتکار کا مکمل بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے (تقسیم کے فوری بعد) ریاستوں، راجواڑوں اور بڑی زمینداری کا شروع ہی میں قلع قمع کر دیا گیا تھا۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے بھارت کی زیادہ تر Alignment اشتراکی روس کے ساتھ تھی۔ 1962 کی ہند چینی جنگ نے اسے چین سے بھی پرے کر دیا تھا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد گو راجیو گاندھی نے آزاد معیشت کی طرف قدم بڑھائے مگر خاصی حد تک بے دلی کے ساتھ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ جولائی 1991 میں بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 200 ملین ڈالر رہ گئے تھے جو ان دنوں بھارت کی کوئی دو ہفتے کی درآمدات بنتی تھیں۔ USSR کا انہدام (جہاں سے بھارت کا تمام تر تیل آتا تھا)، کویت /عراق جنگ سے بھارتی لیبر کی خلیج سے واپسی سب بری خبریں ایک ساتھ بھارت کی معیشت کو جکڑے ہوئی جس سے بھارتی روپیہ روز بروز اپنی قدر کھوتا جا رہا تھا۔
اس برے وقت میں جب بھارت کو عالمی بھکاری کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، نرسیمہاراو اور من موہن سنگھ نے دو کام کئے۔ ایک بھارت کے قبلے کی روس سے امریک / یورپ کی طرف تبدیلی اور دوسرے آئی ایم ایف کی مدد سے معاشی اصلاحات۔ سرمایہ کاری، تجارت، ایکسچینج ریٹ کو لائسنس راج اور حکومتی کنٹرول سے نکالا اور نجکاری اور برآمدات کی راہ پر نکل پڑے۔ اس کے بعد 1997 سے 2004 تک خاصی سیاسی کشمکش اور غیر یقینی رہی مگر نرسیمہاراو کے وزیر خزانہ من موہن سنگھ اور یونائیٹڈ فرنٹ کے چدم برم سوامی نے لبرلائزیشن کی طرف اٹھائے قدم واپس نہیں لئے۔ 2004 سے 2014 تک من موہن سنگھ اور 2014 سے آج تک مودی حکومت لگ بھگ اسی 1991 کے معاشی فلسفے پر رواں ہے جس کے باعث آج وہ 3300 ارب ڈالر (پاکستان 330 ارب ڈالر) کے GDP کے ساتھ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 500 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ چاند پر قدم اور سورج پر نگاہ۔
ایسا نہیں کہ بھارت میں ہر طرف دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ آج بھی ہماری طرح ان کی 25 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے اور 40 فیصد محض subsistence پر زندہ ہے۔ کرپشن، اقربا پروری اور مذہبی منافرت کا کلچر عام ہے۔ سڑکوں اور انفراسٹرکچر کے حالات بھی کچھ ہمارے جیسے ہی ہیں۔ سیاست میں بھی خاصی عدم برداشت ہے کہ حال ہی میں راہول گاندھی کو ان کی 2019 کی تقریر میں یہ کہنے پر کہ "سب چوروں کے نام میں مودی کیوں آتا ہے" گجرات کی عدالت سے defamation act کے تحت دو سال قید کی سزا ہوئی جس کو کچھ دن پہلے سپریم کورٹ نے معطل کیا ہے۔
مگر ساتھ ہی ساتھ بھارت، امریکہ اور یورپ کی آنکھ کا تارا بھی ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پاور ہاوس بھی اور ترقی کی رفتار ہے کہ 2016 کی نوٹ بندی، کووڈ اور ہندتوا کے باوجود سات، آٹھ فیصد سالانہ سے کم نہیں ہورہی۔ غور کریں تو جن وجوہات یعنی کرپشن اور بری سہولیات وغیرہ کو ہم اپنی موجودہ حالت کا باعث سمجھتے ہیں وہ تو بھارت میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔
گہری نظر سے دیکھیں تو بھارت کی گزشتہ 33 سال کی معاشی کامیابی کی دو ہی بڑی وجوہات ہیں۔ اول حکومت کی تبدیلیوں کے باوجود بین الاقوامی اور مقامی معاشی پالیسیوں کا تسلسل اور دوم بھارت کا امریکہ اور یورپ میں ایک غیر انتہا پسند اور مغربی تہذیب کو ناپسند نہ کرنے کا image جس میں بیس کروڑ مسلم آبادی کے باوجود، (مغرب کے نقطہ نظر سے) بھارت انتہا پسندی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا ملک نہیں سمجھا جاتا۔ یاد رہے کہ بھارت نے اپنا موجودہ پرو ویسٹرن امیج 1991 کے بعد قومی پالیسی کے تحت اختیار کیا ہے ورنہ اس سے پہلے اسے روس دوست، اشتراکی ملک سمجھا جاتا تھا (1980 کے روس اولمپک میں شامل ہونے والوں میں مشرقی یورپ کے علاوہ بھارت واحد بڑا ملک تھا)۔ Seato، Cento اور Nato سے پرے رہنے کی وجہ سے بھارت مغرب اور امریکہ میں خاصا ناپسند کیا جاتا تھا۔
ان چیزوں میں آپ بھارت کے dynamic private sector اور مغرب کی چین کے خلاف اس علاقے میں بھارت کو ایک طاقتور معیشت کے طور کھڑا کرنے کی کوشش/ سازش کو خیال میں لائیں تو بھارت کی 33 سالہ ترقی سمجھ آنے لگتی ہے۔
چاند کے پار جانے والا بھارت لگتا ہے کہ بہت دور نکل گیا مگر غور سے دیکھیں تو بنیادی سماجی اشاریوں وہ ہم سے بہت دور نہیں۔ فرق شاید ہمارے مغرب اور امریکہ کی نظر میں پاکستان کے image کا ہے یا ہماری معاشی پالیسیوں کی ڈولتی ناو کا۔ برینڈ پاکستان جسے دنیا ایک جنونی اور انتہا پسند ملک سمجھتی ہے (جس کا ایک مظہر ابھی ہونے والا جڑانوالہ کے سانحہ ہے) اور پاکستانی معیشت کی سمت کی uncertainty، جہاں ایک حکومت شمال کو جاتی ہے تو ایک جنوب کو۔
یاد رہے کہ معاشی ترقی کے Solow model کے مطابق ہماری ترقی بین الاقوامی، خاص کر امریکہ اور یورپ کی سرمایہ کاری اور معاشی پالیسیوں کے استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت ترقی کے لئے چالیس سال کے کمیونسٹ image کو چھوڑ مغرب کی آنکھ کا تارا بن گیا اور اس کے ساتھ معاشی پالیسیوں کے استحکام کی راہ پر چل پڑا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اپنے عمومی (مغرب میں ناپسندیدہ) سماجی اور سیاسی رویوں سے ہٹ کر یورپ اور امریکہ کے سرمایہ کار کی favourite منزل بن سکتا ہے؟ اور کیا ہم درست معاشی راہ پر حکومتی تبدیلیوں کے باوجود چلتے رہنے کا یقین اپنے بزنس مین کے ذہن میں راسخ کر سکتے ہیں؟ اگر ان دو سوالوں کا جواب مثبت ہو تو چاند بھی دور نہیں۔ منفی ہو تو ہمارے لئے زمین پر بھی جگہ تنگ ہو رہی ہے۔