Bartania Ka Mustaqbil Waghera
برطانیہ کا مستقبل وغیرہ
جارج میکش 1912 میں ہنگری میں پیدا ہوا، 1938 میں برطانیہ آ گیا۔ ادب اور صحافت سے وابستہ رہا اور 1987 میں لندن میں 75 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ہمارے استاد یوسفی اسے اس دور کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا کرتے تھے۔ اس کی دوسری اور شائد سب سے مشہور کتاب "How to be an Alien" قریب 1946 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع انگریزوں اور بقیہ یورپ کے لوگوں کی idiosyncrasies کا پرلطف اور پر مزاح موازنہ ہے جس کا صحیح لطف انگریزی ہی میں ہے۔ مگر ایسے ہی اس چھوٹی سی کتاب کا ایک آدھ پیرا دیکھئے۔
انگلینڈ میں ہر چیز نرالی ہے۔ سب سے پہلے یہ سمجھنا نہایت اہم ہے کہ جب یہ لوگ انگلینڈ کہتے ہیں تو اس سے ان کا مطلب بسا اوقات برطانیہ (انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز)، کبھی برطانیہ عظمیٰ (انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ) اور کسی وقت جزائر برطانیہ (انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، ویلز، شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ) ہوتا ہے لیکن کسی بھی صورت اس سے مراد اکیلا انگلینڈ نہیں ہو سکتا۔
کتاب کا یہ حصہ آپ کو اس بات کی آگاہی دے گا کہ انگلینڈ میں لوگوں کو کیسے متعارف کروایا جاتا ہے۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ دو اجنبی لوگوں کو آپس میں متعارف کروا رہے ہوں تو کبھی ایک کا نام اتنی اونچی آواز میں نہ بولیں مبادا دوسرا اس کو سننے میں کامیاب ہو جائے (اگر ایسا ہو بھی جائے تو خاطر جمع رکھیں کہ انگلینڈ میں کوئی بھی یورپ یا کسی اور جگہ کا لہجہ نہیں سمجھ سکتا)۔
اگر آپ کو کوئی کسی اجنبی سے متعارف کروائے تو آپ کے لئے دو اصول سمجھنا نہایت اہم ہیں۔
اول۔ اگر وہ آپ سے ہاتھ ملا کر گرمجوشی سے ہلانا شروع کر دے تو اپنا ہاتھ ساکت رکھیں۔ مسکرائیں اور انتظار کریں۔ جب اس کی گرمجوشی ماند پڑ جائے تو اب آپ کو اس کا ہاتھ ہلانے کا یکسوئی سے موقع دستیاب ہو گا۔ اسی کھیل کو دوپہر اور شام میں بھی دہراتے رہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہی انگلینڈ میں آپ کی دوپہر اور شام کے دلچسپ ترین لمحات ہوں۔
دوم۔ جب تعارف ہو چکے اور آپ کا نیا دوست پوچھے کہ " کیا حال ہے؟" تو آپ نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی ہے کہ اس خبیث کو آپ کے خوش یا رنجیدہ ہونے، یا اس سے بھی بڑھ کر آپ کے جینے یا کسی موذی مرض سے فوت ہو جانے میں چنداں دلچسپی نہیں۔ اس لئے خاموش رہیں ورنہ گفتگو یہ رنگ اختیار کرے گی۔
وہ: کیا حال ہے آپ کا؟
آپ: صحت تو ٹھیک ہے مگر رات کو نیند صحیح طریقے سے نہیں آتی۔ بایاں پاؤں بھی کل سے درد کر رہا ہے اور معدے اور انتڑیوں کا فعل بھی کچھ گڑبڑ ہے۔ اس طریق کی گفتگو نہایت غیر انگلش اور ناقابل معافی سمجھی جاتی ہے۔
اگر کسی کو ملیں تو ہرگز یہ نہ کہیں کہ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی کہ انگریز اسکو بدتمیزی گردانتے ہیں۔ اور ہاں ایک بات اور یاد رکھیئے گا کہ کسی غیر انگریز وکیل، استاد، ڈاکٹر، دندان ساز یا دکاندار کو کبھی "ڈاکٹر" کہہ کر ہرگز مخاطب نہ کیجئے گا کہ یہاں ڈاکٹر کا مطلب ہے کہ آپ وسطی یورپ سے آئے ہیں اور انگریز وسطی یورپ کے لوگوں سے چڑتے ہیں۔
موسم اس خطے کا سب سے محبوب موضوع گفتگو ہے۔ یورپ میں جب یہ کہا جائے فلاں شخص موسم پہ بات کرنے میں خاص شغف رکھتا ہے تو اس سے مراد اس شخص کا انتہا درجے کا بور ہونا ہوتا ہے۔ مگر انگلینڈ میں موسم کی بابت بات کرنا نہایت دلچسپ، دل آویز اور مرغوب سمجھا جاتا ہے اور یہاں زندہ رہنے کے لئے آپ کو موسم کے بارے میں بات کرنے کے آداب سیکھنا ہوں گے۔
موسم کے بارے گفتگو کی چند امثال۔
اچھے موسم کی صورت میں۔
کیا اچھا دن ہے، ہے ناں؟
ہے ناں۔ کیسا خوبصورت۔
یہ سورج۔
کیا ہی خوب ہے۔ ہے ناں؟
بہت۔ خوبصورت۔ ہے ناں؟
کیسا اچھا اور گرم۔
میرا خیال ہے کہ گرم ہو تو بہت اچھا لگتا ہے۔ ہے ناں؟
مجھے تو بے حد اچھا لگتا ہے۔ اور تمہیں؟
برے موسم کی صورت میں۔
کیا برا دن ہے۔ ہے ناں؟
بہت ناخوشگوار۔ ہے ناں؟
بارش۔ سخت بری لگتی ہے مجھے۔
ذرا سوچو۔ جولائی کے ایسے دنوں میں۔ صبح بارش۔ تھوڑی دیر کو دھوپ پھر بارش، بارش اور سارا دن بارش۔
یاد ہے 1936 میں بھی جولائی کے اسی دن بارش ہوئی تھی۔
ہاں، ہاں، یاد ہے مجھے۔
یا شاید یہ۔ 1928 کی بات ہے۔
ہاں ہاں۔
یا پھر 1939؟
ہاں ٹھیک کہا آپ نے۔
اب اوپر کی ان سطروں پر غور کیجئے۔ ان میں ایک اہم اصول واضح دکھائی دے رہا ہے کہ اپ کو موسم کے بارے گفتگو میں بہر صورت دوسروں سے اتفاق کرنا ہے۔ اب اگر بارش اور ژالہ باری ہو رہی ہو اور طوفانی ہوائیں درخت اکھاڑنے کے درپے ہوں اور کوئی کہے کہ
کیا ہی اچھا موسم ہے۔ ہے ناں؟
تو ترنت۔ جواب دیجئے گا۔
ہے ناں۔ کیسا۔ خوبصورت۔
اس گفتگو کو یاد رکھیں اور پلے سے باندھ لیں کہ اسے بار بار استعمال ہونا ہے۔ اگر آپ یہی گفتگو تمام عمر ہر روز بھی کرتے رہیں تو بھی ممکن ہے لوگ آپ کو نہایت زیرک، خوش اخلاق اور دلچسپ سمجھتے رہیں۔ آپ اکثر ریڈیو پر سنیں گے موسم نہایت خوشگوار ہے مگر باہر نظر دوڑائیں گے تو بارش اور ژالہ باری۔ اسی طرح کبھی خراب موسم کی رپورٹ ہو گی اور سورج آپ کا منہ چڑا رہا ہو گا۔ کہیں آپ سمجھیں کہ محکمہ موسمیات والوں کی غلطی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔
ریڈیو والے تو اپنی طرف سے وہ موسم بتا رہے ہوتے ہیں جو اس دن ان کے خیال میں انگلستان میں ہونا چاہئیے۔ مگر اب اس کا کیا کیا جائے کہ دنیا کے کسی اور بے کار خطے کا موسم جا و بے جا بے چارے برطانیہ میں در آتا ہے اور یہاں کی آب و ہوا کا حلیہ بگاڑ جاتا ہے۔ اگر برطانوی موسم کے ساتھ ان غیر ملکی بگولوں کی چھیڑ چھاڑ جاری رہی تو مجھے برطانیہ کا مستقبل کچھ خاص اچھا دکھائی نہیں دیتا۔