Amjad Islam Amjad
امجد اسلام امجد
خدا کے کام ہیں۔ کسی کو دولت دیتا ہے، کسی کو ہنر، کسی کو صحت، کسی کو شہرت، تو کسی کو عہدہ، کبھی ان سب کا کچھ کمبینیشن اور کبھی اس کے بالکل برعکس۔ کسی حساب، کسی ratio، کسی probability، حق اور ناحق سے بالا۔ مومن و کافر، رند و زاہد کو دیکھے بغیر۔ اس کی مرضی ہے۔ اس کی قدرت کی random walk ہے۔
صوفیا کہتے ہیں کہ کامیابی اس عطا کا مستحق ٹھہرنے کا نام نہیں۔ ان کے مطابق اصل امتحان تو عطا یا آزمائش کے بعد شروع ہوتا ہے۔ شاید وہ معبود ہمیں اپنی free will اور عطا دے کر دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کی دی گئی عطا و سزا پر ہمارا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ صوفیا انسان کی عظمت کو برتن کے بھر جانے سے نہیں بلکہ اس میں ڈالے گئے محلول کو سنبھالنے۔ اس کے ذائقے، ٹھنڈک، خوشبو اور تاثیر کو برقرار رکھنے یا اسے بہتر بناتے ہوئے، نفس کے غرور سے بچے رہنے سے پرکھتے ہیں۔
ربّ کی عطا کے ہزاروں رنگ ہمارے آس پاس رہتے ہیں۔ کوئی ایکدم بہت مشہور اداکار بن جاتا ہے۔ کوئی کھلاڑی تمام ورلڈ ریکارڈ توڑ دیتا ہے۔ کوئی راکھ میں ہاتھ ڈال کندن بنا دیتا ہے۔ کسی کے پیچھے لوگ یوں چل پڑتے ہیں جیسے pied piper کی دھن پر جانور اور بچے۔ یہ سب نام و نمود، شہرت عام اور بقائے دوام، اسی قدرت کے random تعامل کا نتیجہ ہے کہ جسے ہم اپنی محنت، ٹیلنٹ اور ہنر، سمجھ رہے ہوتے ہیں اس جانب توجہ اور رسائی بھی دنیا کی بھول بھلیوں میں randomly کھلتے اور بند ہوتے ہوئے دروازوں کا کھیل ہے۔
اتنی لمبی تمہید کا مقصد گئے روز خالق حقیقی سے ملنے والے اردو کے لازوال قلم کار اور مربّی امجد اسلام امجد صاحب کا ذکر خیر کرنا ہے۔ کل تو ساری فیس بک اور، ٹوئٹر ان کی تصویروں سے بھرے تھے۔ قریب ہر کسی نے اپنے ساتھ ان کی تصویر بنائی ہوئی تھی۔ میں ہر تصویر میں ان کا کھڑے ہونے کا اور دیکھنے کا انداز بہت دیر تک دیکھتا گیا اور ان کے ساتھ اپنی ہونے والی ملاقاتوں اور مشاعروں میں ان کو کبھی سامعین میں بیٹھ کر اور کبھی ان کے ساتھ پڑھنے کی محفلوں کا تمام تر منظر یاد کرتا چلا گیا۔
کل سے سب نے لکھا کہ کیسے امجد صاحب ایک غیر ادبی گھرانے سے ادب میں آئے، 28 سال کی عمر میں یانصیب کلینک لکھا اور 35 سال کی عمر میں وارث اور برزخ کے ساتھ پورے برصغیر میں جانے جا چکے تھے۔ ڈرامے، گیت، غزلیں، نظمیں، فلمیں، کالم، سفر نامے گویا فن تحریر سے جو بھی معجزے بپا ہو سکتے تھے کئے۔ نصف صدی تک اردو کے قلم کاروں کی صف اول میں رہے اور کوئی ربّع صدی سے تو، یہ عالم تھا کہ ان کے قد کے نزدیک بھی کوئی نہیں دکھتا تھا۔ نہ مشکل لفظ لکھے اور نہ مشاعراتی شعبدہ بازی کی۔ مگر اس کے باوجود جہاں جہاں اردو زبان سمجھی جاتی ہے انہیں شوق سے پڑھا گیا اور انہماک سے سنا گیا۔
نصف صدی میں اپنی تخلیقی صلاحیت کھوئے بغیر لگاتار لکھنا ہنر کا معجزہ ضرور ہوگا مگر اس میں عطائے ربّ بھی یقینی طور پر شامل رہی ہوگی۔ میری بات کا مقصد اس سے ہٹ کر ہے کہ کہ امجد صاحب کو یہ مقام کیونکر ملا۔ مجھے یہ بتانا ہے کہ میری نظر میں اس تمام شہرت اور کامیابی نے امجد اسلام امجد کے ساتھ کیا کیا یا دوسرے لفظوں میں اس عطائے ربّ پر امجد صاحب کا ردعمل اور رویہ کیا تھا۔
بہت سے مشاہیر سے ملنے کا اتفاق رہا اور دیکھنے میں یہی آیا کہ شہرت اور کامیابی اکثر و بیشتر لوگوں پر ایک نرگسیت، ایک مردم بیزاری، ایک خود ستائشی، ایک توجہ کا مقناطیس پن، رویے اور لہجے میں غرور یا بعض اوقات بڑھی ہوئی عاجزی سے دوسروں کو مغلوب و متاثر کرنے کی دھن پیدا کر دیتی ہے، ذات میں ایک کبریائی سی در آتی ہے۔
امجد صاحب کو ان کے گڑھی شاہو والے گھر، میں اسی کی دہائی میں ملنے سے لے کر ان کے ڈیفنس والے گھر میں پچھلے سال کے اوآخر تک کوئی 35 سال تو وقفے وقفے سے ملنا رہا ہوگا۔ امجد صاحب نہیں بدلے، نہ کبھی علمیت سے مغلوب کرتے نظر آئے نہ اپنی presence، اپنی شہرت، اپنے حلقہ احباب کے بڑے ناموں سے کبھی مرعوب کرنے کی کوشش کی۔ سادہ لباس میں، بغیر، کسی رکھ رکھاؤ کے ملے۔ ان سے بات کرتے تو علمیت کے بعد کے باوجود وہ اتنے ہی شوق سے دوسرے کی بات سنتے۔ دیر ہو جاتی تو گھر میں اندر جا کر اپنے ہاتھوں سے، چائے لے کر آ جاتے۔ گفتگو میں ابھی بھی "میں" کا ذکر کم تھا اور دوسروں کا زیادہ۔
لطیفوں پر آتے تو، جتنا ہنساتے تھے اتنا ہی خود بھی ہنستے اور یہ رویہ مجھ سے خاص نہیں تھا۔ کوئی بیس برس کا نوآموز بھی ان تک پہنچتا تو، اس سے بھی ایسے ہی ملتے۔ ایسے جیسے اپنی عظمت، کامیابی اور شہرت کا نہ کوئی زعم ہے اور نہ احساس۔ ان کے پاس سے نکلتے تو ان کی دستخط شدہ کوئی نئی چیز بھی ہوتی اور یہ احساس بھی کہ ان سے مل کر اپنی عزت نفس بڑھی ہے، کم یا زیر بار احسان نہیں ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ امجد صاحب اپنے خالق کے اس امتحان پر، پورا اترے اور اپنے ربّ کو اسی بے تکلفی سے ملے ہوں گے جیسے میرے جیسے بہت سوں سے ملتے رہے ہیں۔