Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Habib ur Rehman Rana
  4. Ummat e Muslima Ke Urooj O Zawal Ki Kahani

Ummat e Muslima Ke Urooj O Zawal Ki Kahani

امت مسلمہ کے عروج و زوال کی کہانی

اگر ہم تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھیں تو ہمارا ماضی شاندار، جاندار، بےباک اور بے مثال نظر آتا ہے۔ ہمارا ماضی تاریخ کے اوراق میں قابل فخر ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اسلام نے جو نظام حیات معاشرے کی تشکیل کے لیے دیا ہے وہ عالم انسانیت کیلے ہمیشہ کے امن وسلامتی کا مظہر، دنیاوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اس فطرتی نظام حیات اور اصول و ضوابط جس نے عالم انسانیت کو امن و سلامتی، پیدائش سے موت تک، زندگی کی تمام تر معاشرتی اور معاشی ترقی کی تمام راستوں کی نشاندہی کر دی ہے۔

اس نظام فطرت کو جب دنیا کی جاہل ترین قوم! وہ قوم جو شراب خوری، قمار بازی، دختر کشی اور معمولی جھگڑے پر کئی سالوں تک لڑائی کا جاری رہنا جیسی عادات والی قوم نے اپنایا اور دنیا پر راج کیا! اسی فطرتی نظام حیات کے ماننے والوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں اور قوتوں کو زیر کیا! وہ قوتیں اور طاقتیں جو دنیا میں اپنا اثر رکھتی تھی! ان کے شان و شوکت کو غرور میں ملایا۔

وہ قوم جو کبھی اپنے مسائل اور لڑائیوں سے فارغ نہیں ہوتی تھیں انہوں نے دنیا پر اپنا سکہ بٹھایا! قیصر و کسرٰی بن ہرمز الکوفی کے محلات قبضہ میں آئے۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں 22 لاکھ مربع میل پر نظام فطرت قائم تھا۔ یہ دور امن و سکون اور کامیابی کا زینہ تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا امت میں انتشار اور فتنہ و فساد کا شکار ہوتی چلی گئی۔ امت کا نظام فطرت پر عمل پیرا ہونا ڈھیلا پڑتا گیا!غلامی، ناکامی، مایوسی بڑھتی گئی۔

عروج زوال میں تبدیل ہوتا چلا گیا!یہاں تفصیل ممکن نہیں! بات المختصر کہ جب کوئی قوم نظام فطرت سے ہٹتی ہے تو منہ کے بل گرتی ہے۔ ناکامی مایوسی، زوال اس قوم کا مقدر ہوتا ہے۔ نظام فطرت سب کے لیے یکساں ہے! جس فرد یا قوم نے اس کے روشن اور واضح اصول وضوابط کو اپنے اوپر لاگو کیا کامیابی و عروج اس کا مقدر بنی۔ دنیا وآخرت کی کامیابی، ترقی عروج، عزت وخوشحالی، امن وسکون صرف نظام فطرت میں ہے!

جب قومیں نظام فطرت کے بجائے خود ساختہ نظام لاگو کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو زوال ان کا مقدر بن۔ جاتا ہے۔ جب تک کوئی قوم اپنی حالت نہ بدلے رب اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا رب نے نظام فطرت کو سب کےلیے یکساں متعین کیا ہے! جب قومیں بگڑتی ہیں تو

اچھی صِفَات کی جگہ بُری صِفَات اپنا لیتی ہیں، محنت کی جگہ سستی کا شکار ہوتی ہے، فرض شناسی کی بجائے لاپروائی سے کام لیتی ہیں، تقویٰ کی بجائے گُنَاہ کی راہ اختیار کرتی ہیں۔

شکرگزاری کی بجائے ناشکری کرتی ہیں تو قوموں کی عزّت کو ذِلَّت میں، خوشحالی کو تنگ حالی میں، عروج کو پستی میں، ترقی کو زوال(Downfall) میں اور کامیابی (success) کو ناکامی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

یہ اس دنیاکی زندگی کی ایک جیتی جاگتی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے، ا س کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول کیلئے مسلسل ایثار و قربانی اور جد وجہد کرنے کیلئے کوشش و محنت نہیں کرتی آرام وآرائش کا فلسفہ اپناتی ہیں تو اس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح یقینی ہوتا ہے جس طرح تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کاگل ہوجانا یقینی امر بن جاتا ہے۔ پستی، ناکامی ہمارا مقدر کیوں؟ کیوں کہ ہم نظام فطرت کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر گئے ہیں۔

آئیے تاریخ کے اوراق سے کچھ عروج وزوال کے بارے میں جانتے ہیں۔ آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے شہزادوں کے سر قلم کرکے اس کے سامنے کیوں پیش کئیے گئے۔ قبرودفن کیلئے زمین کی جگہ کیوں نہ ملی۔

آج بھی اسکی نسل کے بچے کھچے لوگ بھیک مانگتے پھرتے ہیں! آخر کیوں عرش سے فرش تک کا سفر طے ہوا! جن کے نام کے کبھی ڈنکے بجتے تھے!

جب قومیں اپنا وصف کھو بیٹھں! اپنے نصب العین سے منہ موڑ لیں، جب محنت کے بجائے آرائش وآرام عیاشی کو اپنے اوپر عاوی کر لیں تو یہی حال ہوتا ہے!

زمانہ 1780ء کے لگ بھگ کا ہے دہلی ہیڈ کوارٹر ایسٹ انڈیا کپمنی، وقت صبح کے ساڑھے تین بجے کا ہے سول لائن میں الام بج اٹھا ہے۔

چالیس سالہ کپتان رابرٹ اور اٹھارہ سالہ لیفٹیننٹ ہینری دونوں ڈرل کیلئے جاگ گئے ہیں۔ دو گھنٹے بعد طلوع آفتاب کے وقت انگریز سسویلین بھی بیدار ہو کر ورزش کر رہے ہیں۔

انگریز عورتیں گھوڑ سواری کو نکل پڑی ہیں سات بجےتک انگریز مجسٹریٹ وافسر دفتروں میں اپنی اپنی کرسیوں پر برابر جمان ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سفیر سر تھامس مٹکاف دوپہر تک کام کا اکثر حصہ ختم کر چکا ہے۔

شہنشاہ ہند، بہادر شاہ ظفر کے تازہ ترین حالات کا تجزیہ آگرہ اور کلکتہ بھیج دیا گیا ہے۔

دن کے ایک بجےسر مٹکاف بگھی پر سوار ہو کر وقفہ کرنے کیلئے گھر کی طرف چل پڑا ہے۔ پردہ کے دوسری طرف نظر دوڑائیے۔۔ یہ ہے وہ وقت جب انگریز اپنا کام مکمل کرکے اپنی رہاش گاہوں کی طرف رواں ہیں جب کہ لال قلعہ کے شاہی محل میں"صبح" کی چہل پہل شروع ہو رہی ہے۔

ظل الہی کے محل میں صبح صادق کے وقت مشاعرہ ک ختم ہوتا ہے۔ جس کے بعد ظلِ الٰہی اور عمائدین خواب گاہوں کو گئے تھے۔ اس حقیقت کا دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ لال قلعہ میں ناشتے کا وقت اور دہلی کے برطانوی حصے میں دوپہر کے لنچ کا وقت ایک ہی تھا۔

دو ہزار سے زائد شہزادوں کا بٹیربازی، مرغ بازی، کبوتر بازی اور مینڈھوں کی لڑائی کا وقت بھی وہی تھا۔

آپ اندازہ کر لیں جب ایک بندہ رات بھر موبائل فون میں فضول چیٹنگ میں مگن رہا! وہ صبح اپنی نیند پوری کرنے کیلیے دن دس بجے اٹھے گا!، وہ خاک ترقی کرے گا۔ جس کی فجر قضا ہوگئی سارا دن بوجھل طبیعت میں ہوگا!

ہم بحیثت قوم الٹی گنگا میں تیر رہے ہیں! ہم زوال کے وقت اٹھتے ہیں اور زوال کا کام شروع کرتے ہیں تو ہوتا وہی ہے جو ہم بوتے ہیں ہم زوال کو بوئیں گے تو زوال ہی کاٹیں گے ایسا تو ہو نہیں سکتا زوال بو کر ترقی کا پھل حاصل کریں۔ رب کی سنت کسی کے لیے نہیں بدلتی جو محنت کرے گا وہی کامیاب ہوگا۔ ہمارا طرز زندگی اج بھی وہی ہے جو کبھی لال قلعے والوں کا ہوا کرتا تھا تو سمجھ لیجئے کہ کہ زوال ہمارا مقدر بنتا جا رہا ہے۔

اس قوم کو کسی ایٹم بم سے مارنے کی ضرورت نہیں ہے یہ شکست زدہ قوم زوال کے کھلے اصولوں پر من و عن عمل کر رہی ہے۔ بکریاں رات کو فورا سو جاتی ہیں اور فجر سے پہلے اٹھ جاتی ہیں یہ نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے اسی لیے بکریوں میں برکت ہوتی ہے اور کتے رات بھر بھونکتے رہتے ہیں اور فجر کا وقت قریب ہوتے ہی سو جاتے ہیں اس لیے رحمت اور برکت سے محروم ہوتے ہیں۔ پس غور و فکر کا مقام ہے آج ہمارا یہی حال ہے ہم اپنی راتوں کو فضولیات میں گزارتے ہیں اور صبح بوقت نزول رحمت سو جاتے ہیں اسی وجہ سے آج نہ ہمارے مال میں اور نہ ہی ہماری اولاد میں اور نہ کسی چیز میں برکت ہے۔

دنیا کے مشہور اور بڑے شہروں میں رات آٹھ بجے ہو کا عالم ہوتا ہے صرف بیکریاں، ریسٹورنٹ اور ہسپتال کھلے ہوتے ہیں باقی ماندہ عوام جلد سوتے ہیں جلد اٹھتے ہیں صبح جلدی کام شروع کرتے ہیں سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں سورج کے زوال کے وقت کام کاروبار شروع ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بڑے شہروں میں دن ایک بجے مارکیٹیں کھلتی ہیں اور رات گئے بند ہوتی ہیں۔

پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا سات بجے تک کھا لیتے ہیں، آٹھ بجے تک بستر میں ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں موجود ہوتا ہے پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اور سنگاپور میں کوئی دفتر، کارخانہ، ادارہ، ہسپتال ایسا نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں!

آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہیں۔

اللہ کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا، نہ کسی نے اس کو جنا جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن کے ایک بجے تولیہ بردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے والا، بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، ناکام رہے گا۔

بدر میں فرشتے نصرت کیلئے اتارے گئے تھے لیکن اس سے پہلے مسلمان پانی کے چشموں پر قبضہ کر چکے تھے جو آسان کام نہیں تھا اور خدا کے محبوبﷺ رات بھر یا تو پالیسی بناتے رہے یا سجدے میں پڑے رہے تھے!

حیرت ہے ان حاطب اللیل دانش وروں پر جو یہ کہہ کر قوم کو مزید افیون کھلا رہے ہیں کہ پاکستان ستائیسویں رمضان کو بنا تھا کوئی اسکا بال بیکا نہیں کرسکتا کیا سلطنتِ خدا داد پاکستان اللہ کی رشتہ دار تھی اور کیا سلطنت خداداد میسور اللہ کی دشمن تھی (ٹیپو سلطان کی سلطنت)۔

آئیے آج سے اپنے اپ کو بدلیے صبح کا اغاز جلدی کیجئے۔ اگر آپ بھی وقت کے سکندر بنا چاہتے ہیں تو سحر خیزی کو اپنے اوپر لازم کر لیں دنیا و آخرت کی ساری کی ساری برکات سحر خیزی میں ہے!

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal