Hamari Tarjeehat
ہماری ترجیحات
ایک ایسے وقت میں جب مملکت خداداد پاکستان تاریخ کے مشکل ترین حالات سے دوچار ہے یہ مملکت خداداد پاکستان اس قوم سےیہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنےمفاد کو بالائے طاق رکھ کرریاست پاکستان کو ان مشکل حالات سے نکالیں لیکن بد قسمتی سے اس قوم کی ترجیحات کچھ اورہیں۔ ہمیں صرف اپنا مفاد عزیز ہے ہم نے اپنے مفاد کی تکمیل کے لئے بھی نعرے بنائے ہوئے ہیں اور یہ نعرے ہم نے کہاں لگانے ہیں یہ ہم خوب جانتے ہیں۔
ہمارے پاس مذھبی، سیاسی، سماجی، ہر قسم کے نعرے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک نعرہ ہے ووٹ کو عزت دو اور جمہوریت کی بالا دستی ان دنوں حقیقی جمہوریت کے چیمپئن جواس قوم کو جمہوریت کا سبق دیتے رهتے ہیں اور دیتے رہیں گے ایک بار پھر جمہوریت کی بقا کے لئے جمہوریت کا نعرہ لے کر میدان میں آ چکے ہیں۔ اوربقول ان کے وہ جمہوریت کی بقا کے لئے کوئی بھی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ خواہ وہ سندھ ہاؤس میں منحرف ارکان کی بولیاں لگا کے دینا پڑے یا ناظم جوکھیو قتل کیس میں ملوث رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم کوتحریک عدم اعتماد کے ووٹ کے لئے پاکستان بلا کر وہ جمہوریت کی خاطر اخلاقی اقدار حتیٰ کہ سب کچھ بھی کھونے کو تیار ہیں۔
جی ہاں! جمہوریت لازمی بچانی ہے ملک بچے نہ بچے کیوں کہ اس وقت اسی میں اپنا مفاد ہے۔ میرے پاکستانیو! کیوں کہ جو جمہوریت ہم بچانے نکلے ہیں اسی میں تو ہماری بقا ہے اسی جمہوریت کے بل بوتے پر تو ہم نیب کا قانون اپنی مرضی کا بنائیں گے۔ اداروں کو اپنی حدود بتائیں گے جس کے اندر رہ کروہ کام کریں گے اداروں کی حدود سے مراد وہ حدود جو ہم چا ہیں گے جب ادارے انکی مرضی پر چلیں تو نیوٹرل ہوتے ہیں اور اگر انکی مرضی کے مطابق نہ چلیں تو واویلا کرتے ہیں کے ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں اور دھمکی دیتے ہیں کہ اگر ادارے اپنے حدود میں نہ رہے تو ہمارا ضمیر جاگ جائے گا۔
ضمیر سے یاد آیا کہ پاکستان میں ضمیر جاگنے کا سورج طلوع ہو چکا ہے بہت سے مر د قلندر جنکا ضمیر تین چار سال پہلے ئے پاکستان کی صورت میں جاگا تھااور پھر حکومت میں رہنے کے بعد سو گیا تھا اب دوبارہ انکا ضمیر جاگ چکا ہے اور کیوں نہ جاگتا سندھ ہاؤس جیسی مقدس جگہ پرنہ جاگتا تو اور کہاں جاگتا اورضمیر ایسا جاگا ہے کہ اب ان کا ضمیرپرانے پاکستان کےجہاز میں سوار ہو کرئے پاکستان میں لینڈ کر رہا ہے جی ہاں یہ ہمارا ضمیرہےجب مرضی جاگ جائے آپکو اس سے کیا لینادکیوں کہ
یہاں تہذیب بکتی ہے یہاں فرمان بکتےہیں!
ذرا تم دام تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں
ویسے مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انکا ضمیر جاگ گیا ہے اور میں تو حیران ہوں کہ ایسی قوم جو پاپڑ بیچنے والے کو چھوٹی سی چوری کے الزام میں قتل کر دے اور اسکی لاش زمین پر پڑی رہے اور لوگ مزے سے کھانا کھا رہے ہوں اور انکو کوئی بےشرمی محسوس نہ ہواور بڑے چوروں کو اپنا حکمران مان لے۔ ہمارا ضمیر کیسے جاگ سکتا ہے جب ضمیر ہی مردہ ہو جائے تو وہ کیسے جاگ سکتا ہے؟
ہاں یاد آیا ہمارےپاس ضمیر جگانے کےلئے بہت سےکارڈ ہیں سندھی کارڈ، پنجابی کارڈ، بلوچی کارڈ، مہاجر کارڈ، پھر اس کے درمیان سنی کارڈ، وہابی کارڈ، شیعہ کارڈ ہم تو مذھبی کارڈ بھی بھرپورطریقے سے استعمال کرتے ہیں چا ہیں تو عورت کی حکمرانی حلال کر دیں چا ہیں توحرام ہم چاہیں تو کسی کو یہودی بنا دیں چاہیں تو مسلمان۔
چاہیں تو ناموس رسالت کے نام پرعاشق رسول بن کرپورے ملک پردھاوا بول دیں نہ چاہیں تواسلاموفوبیا کے خلاف بل پاس ہونے پرزبان پر پٹیاں باندھ لیں اورعمران خان کو داد نہ دیں کے یہ تو کارڈ ہم نے چلانا تھا کہیں اس کارڈ سے اسکی سیاسی ریٹنگ نہ بڑھ جائے ہمارا نعرہ ہمارا مقصد نہیں ہوتا اس نعرے کے پیچھے ہمارا مفاد چھپا ہوتا ہے انہی نعرون کے درمیان ایک اورنعرہ لگا ہے اور وہ ھے ریاست مدینہ کا نعرہ دعا ہے ریاست مدینہ کاعظیم نعرہ سابقہ نعروں کی بھینٹ نہ چڑھ جائےکاش کہ مدینہ کی ریاست کاعظیم نعرہ ہماری زندگی کا مقصد بن جائےاورمملکت خداداد پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکے۔