Wednesday, 16 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Qawaneen Ki Be Ja Bharmar

Qawaneen Ki Be Ja Bharmar

قوانین کی بے جا بھر مار

کل ایک عالمی دن منایا گیا جس کا مقصد تیار کردہ چیز کو ایک معیار کی چھلنی سے گزار کر گاہک تک پہنچانا مقصود ہے۔ اس سال کا موضوع تھا "ایک بہتر دنیا کے لئے مشترکہ وژن"۔ بظاہر یہ ایک اچھا اور احسن اقدام ہے کہ دنیا کے ساتھ شانہ بشانہ چلا جائے۔ لیکن ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ابھی اس معیار سے بہت پیچھے ہیں۔

اگر کوئی بندہ اپنے منہ پر ہاتھ مار کر چہرہ لال کر رہا ہے تو ہمیں اپنا چہرہ لال کرنے کے لئے ایسا کرنا ضروری نہیں۔

ہمیں اپنے ملک کی اقتصادی، معاشی، اور معاشرتی ضروریات کو دیکھ کر ایسے قوانین متعارف کروانے چاہئے جو قابل عمل ہوں۔ نا کہ اغیار کے دیکھا دیکھی بے جا قوانین کی بھر مار کر دی جائے جس سے بجائے فائدہ کے الٹا نقصان کا اندیشہ ہو۔

کل جس کا عالمی دن منایا گیا ہمارے ہاں اس ادارے کا نام پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ہے۔ اس ادارے کے بنانے میں یقیننا کوئی منفی پہلو نہیں ہوگا بنانے والوں نے اپنے تئیں ملک کی بہتری عوام تک کوالٹی پروڈکٹ پہنچانا ان کابنیادی مقصد ہوگا۔

لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ الٹی گنگا بہتی ہے جیسے ٹریفک وارڈن، ڈرگ انسپکٹر، ایکسائیز انسپکٹر، ایف بی آر انسپکٹر یا اس ادارے کے انسپکٹر حضرات ان کو لا محدود اختیارات دے کر عوام پر ننگی تلوار دے کر مسلط کر دیا گیا ہے۔ معاشرے کی نا انصافی کے شکار یہ انسپکٹر جب بہت زیادہ قانون کی رو سے طاقتور بن جاتے ہیں تو عوام کے لئے کسی فرعون سے کم نہیں ہوتے۔ ان کا لہجہ بلیک میلنگ ہراساں کرنا اپنے آپ کو جبلی طور پر یہ خود کوتسکین پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ ان کو دئیے گئے اختیارات اس کا حوالہ دے کر جرمانے قید سے ڈرا کر عموی طور پر جو مقصد ہوتا اس پر شکار کو گھیر لیتے ہیں۔

ادھر آپ کی سب نیک نیتی اچھے اقدام کی نفی ہو جاتی ہے۔ جو قانون جس مقصد کے لئے بنایا جاتا ہے وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔

ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کو دیکھیں تو ہم ایسے بے جا قوانین کے بھر مار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ زراعت کا شعبہ ہو، ٹیکسٹائل انڈسٹری یا کوئی بھی مینوفیکچرنگ ادارہ سب روبہ زوال ہیں۔

ہمیں مل بیٹھ کے ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کریں۔ جتنے بھی لال فیتے والے قوانین ہیں ان کو کچھ عرصہ کے لئے پس پشت ڈال لیں تو ہمارے لئے اچھا ہوگا۔ خوف و ہراس کی فضا معیشت کے لئے زہر قاتل ہے۔

ہمیں ایسی فضا بنانی چاہئے کہ ملکی اور غیر ملکی انویسٹر پوری آزادی اور جوش جذبہ کے ساتھ ملک میں انڈسٹری لگائیں۔ سب فائل ورک اور ایسے ادارے جو قدم قدم پر رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں اور حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں ان کو شٹ آپ کال دینا ضروری ہے۔

پاکستان اسٹینڈردز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے انسپکٹرز کو اپنی طاقت دیکھانے کا موقع دینا بھی ہے تو براہ مہربانی جہاں سے پروڈکٹ تیار ہو رہی ہو وہاں پر جا کر اس کے معیار کو یقینی بنائیں۔ نہ کہ بازاروں میں جا کر چھوٹے تاجر طبقے کو جو مناسب منافع لے کر چیز کو بیچ رہا ہے زدوکوب یا ہراساں کیا جائے کہ اشیاء ضبط کر لی جائیں گی۔ دوکان سیل کر دی جائے گی۔ یہ رویہ قابل مذمت ہے۔

اصل ہمارا دھیان جو اشیاء ہم باہر بھیج رہیں ہیں وہ انٹرنیشنل معیار کے مطابق ہو اس کو یقینی بنایا جائے۔

ہمارے ملک میں غربت کی شرح بہت زیادہ مہنگائی اور یوٹیلٹی بلز نے عوام کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ ایسے میں گاہک کی ڈیمانڈ یہ ہوتی کہ سستی سے سستی چیز پر سمجھوتہ کیا جائے۔ تاجر بھی مجبور کہ مہنگی چیز کے خریدار کم ہیں۔ تو جو مینوفیکچرز مارکیٹ میں اپنی چیز کو سستا بنا کر دے رہیں ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے نا کہ جو تھوڑی بہت انڈسٹری چل رہی اس کو بھی بند کروا دیا جائے یا کام سے روک دیا جائے۔

چند ملٹی برانڈ یا بڑی صنعتی ادارے کسی چھوٹے کام کرنے والے کو برداشت نہیں کر پا رہے اور اس قانون کو غلط استعمال کروا رہے ہیں۔

ہمیں اپنی عوام کی مشکلات میں کمی لانی چاہئے۔ ان کی قوت خرید میں اضافہ کرنا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ انڈسٹری لگانے کے لئے تمام رکاوٹوں کو ختم کرنا چاہئے ایک تاجر دوست ماحول وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کسان آپ سے پہلے ہی ناراض ہے۔ تاجر طبقے کی ناراضگی حکومت کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہوگی۔ تاجروں کو مختلف اداروں کے انسپکٹرز کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے بے جا قوانین کا خاتمہ اس حکومت کی اولین ترجیح ہو نا چاہئے۔ معشیت چلے گی تو حکومت سرخرو ہوگی۔

Check Also

Nak Da Koka Aur Israeli Phurtian

By Fayaz Ul Hassan Chohan