Saturday, 26 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Naya Mahaz

Naya Mahaz

نیا محاذ

گزرا کل سفارت کاری کا عالمی دن تھا۔ پہلے مختلف ممالک اپنے اپنے طور پر اس دن کو مناتے آئے ہیں۔ پاکستان میں عالمی دن منانے کی روایت تو ہے پر اس شد و مد کی ہمیشہ کمی محسوس ہوتی جو کہ کسی بھی ایونٹ کا خاصہ ہونی چاہئے۔ حکومتی سطح اور عوامی سطح پر ایک واضح تفریق نظر آتی ہے۔ جس سے اس عالمی دن کی حثیت گہنا سی جاتی ہے۔

دیکھا جائے تو سفارت کاری ایک بہت ہی جہاں دیدہ باریک بینی والا شعبہ ہے۔ اس کو اگر دو دھاری تلوار سے مشابہت دی جائے تو غلط نہ ہوگا۔

ہم کیونکہ خود کو ہمیشہ ایک فارمولہ سے خود کا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ ہے ہمارا ازلی دشمن ہمسایہ ملک، اگر ہم ان کی سفارت کاری کا موازنہ کریں تو خدا لگتی یہی ہے کہ اس نے اس سفارت کاری کے محاذ پر ہمیں چاروں شانے چت کر رکھا ہے۔

ساٹھ کی دہائی تک پاکستان کے پاسپورٹ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے بعد ہم ڈھلوان کا سفر طے کئے جا رہے ہیں اور اب بھی اپنی غلطیوں سے سیکھنا نہیں چاہتے۔

ہمارے ہاں کوئی میکا نزم ایسا نہیں کہ سفارت کار کی کارکردگی کو چیک کیا جا سکے۔ جو بھی سفیر ہم سفارت کاری کے لئے کسی دوسرے ملک لگاتے ہیں اس کا پہلا کام اور آخری کام اپنے ملک کی عزت تکریم اور معاشی میدان میں اضافہ مقصود ہونا چاہئے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ یہ نوکری ہمیشہ سیاسی اقربا پروری کی بنیاد پر دی جاتی ہے اس کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اس سفارت کار کی فیملی یا نسلیں تو سنور جاتی ہیں۔ پر ملک کو اس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔

ہماری سفارت کاری کا رحجان اور انحصار زیادہ تر اپنے اسلامی برادر ممالک پر رہا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن ہمسایہ نے بڑی چالاکی اور اچھی سفارت کاری کے ذریعے ان ممالک کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا ہے جن ممالک پر ہم بہت تکیہ کرتے تھے۔ حالیہ یو اے ای کی ویزہ پالیسی ہمارے لئے آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔

ہمیں ان وجوہات پر غور کرنا چاہئے عالمی دن منانے کا مقصد تبھی پورا ہوگا جب ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں گے اور ان کو سدھارنے کے لئے عملی اقدامات نہیں اٹھاتے۔

کیا وجہ ہے کہ دنیا ہمیں سنجیدہ نہیں لیتی؟ کیا وجہ کہ ائیر پورٹس پر صرف ہمارے سبز پاسپورٹ کو دیکھ کر دوسروں سے الگ کرکے لائن میں کھڑا کر دیا جاتا ہے؟

ہمارے سفارت خانے اور اس میں موجود سفیر اس ملک میں موجود تارکین وطن کو شجرہ ممنوعہ سمجھتے ہوئے ان کی رسائی کو نا ممکن کیوں بنا دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے ازلی دشمن کی سفارت کاری کا توڑ کرنا ہوگا۔ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ ہمیں نئے دوست تلاش کرنا چاہئے۔ اپنی مصنوعات کو متعارف کروانا چاہئے۔ اپنی ہنر مند نسل کو دوسرے ممالک میں کھپانا چاہئے کیونکہ یہ بھی ایک بہت منافع بخش اور ملک کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہوتے ہیں۔

ہمیں اپنے ہیروز کو اعزازی سفیر بنا کر بھیجنا چاہئے ان ممالک میں جہاں ان کی پہچان اور قدر کی جاتی ہو۔ جیسا کہ جہانگیر خاں، جان شیر خان، شعیب اختر، جاوید میاں داد، شاہر آفریدی وغیرہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ ان سے ہمیں اپنے ملک کا تشخص بہتر کرنے کے لئے کام لینا چاہئے۔

جب تک ہم سفارت کاری جیسے اہم اور نازک شعبے کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں کریں گے دنیا ہمیں سنجیدہ نہیں لے گی۔ ہمارا اصل اثاثہ افرادی قوت ہے اور اس میں بھی جوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صرف ان کو دنیا کے معیار کے مطابق تیار کرنا ہے۔

سفارت کار کی پہلی شرط یہ ہونی چاہئے وہ جس ملک میں تعینات ہونے جا رہا ہے وہاں کی زبان پر اس کو عبور حاصل ہو۔ اکثر واقعات پڑھنے کو ملے کسی اور بدیسی ملک کا سفارت کار جب ہمارے ملک میں آتا ہے تو اردو بولنا سمجھنا اس کے لئے چنداں مشکل نہیں ہوتی۔ یہ کسی بھی سفارت کار کی کامیابی کی کنجی کہہ سکتے ہیں آپ وہ اس ملک کے کلچر زبان سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہے۔

دوسرا سفارت کاروں کی کار کردگی ماہانہ بنیادوں پر ہونی چاہئے۔ گاہے بگاہے آنلائن کانفرنسز کا انعقاد ہونا چاہئے تا کہ علاقائی بدلتی صورتحال میں ان کو بروقت آگہی مل سکے۔ جو سفیر اچھی کارکردگی دیکھا رہا ہو اس کی مدت میں اضافہ کرنا چاہئے جو ایک معیار سے کم پر ہو اس کو فی الفور واپسی کا سندیسہ دے دینا چاہئے۔

ہمیں معاشی میدان میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن نے ہمارے بارے میں دنیا کے اندر ایک غلط پروپیگنڈہ کرکے ہمیں ایک دہشت گرد ملک کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ ہمیں اس چھاپ کو اس داغ کو دھونا ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانا ہے۔ اس محاذ پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے۔ ہمیں امن دوستی کا پیغام دنیا کو دینا ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں سیاحتی سرگرمیوں کو بڑھاوا دینا ہے اس پر کام ہونا چاہئے۔ دنیا سبز پاسپورٹ کے عزت کرے اس پر کام کرنا ہے۔ ایسے بہت سے کام ہیں جس پر سب کو اس عالمی دن کے موقع پر سر جوڑ کے بیٹھ کر فیصلے لینا ہوں گے۔

ہمیں آپس کی ذاتی رنجشوں مسلک کے اختلافات کو بھلا کر ایک قوم بن کر دنیا میں اپنا لوہا منوانا ہوگا۔ سیاسی طور پر اقربا پروری کسی کے احسان کے طور پر سفارت کار بنا کر بھیجنے سے اجتناب کرنا ہوگا رائیٹ مین فار رائیٹ جاب کے فارمولے پر عمل کرکے ہی ہم اپنے سبز پاسپورٹ کی قدر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں تعلیمی سلیبس میں ایسی دورس تبدیلیاں کرنا ہوں گی کہ ایک نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرکے سفاری کاری کے میدان جنگ میں محاذ پر جانے کے لئے پوری طرح تیار ہو۔ جب تک سفارت کاری کو ہم ایک محاذ کا درجہ نہیں دیں گے۔ کامیابی ملنا مشکل ہے۔ اس شعر کے اس مصرعے پر غور کرنا ہوگا کہ

"ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا"

اس شاعر کے اس گلے کو جتنی جلد ممکن ہو دور کر دیں۔ اس کے لئے ہمیں قابل فخر قابل بھروسہ ملکی حمیت ملک سے اٹوٹ انگ محبت کرنے والے چند سفارت کار چاہئے جو صرف ملک کا سوچیں نا کہ اپنی نسل یا صرف اپنے خاندان کو بیرون ملک سیٹل کرنے کا پلان رکھنے والے میر جعفر میر صادق۔۔

Check Also

Rishton Mein Nafrat Aur Muhabbat Ka Ehsas

By Adeel Ilyas