Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Kya Hum Ghulam Hain

Kya Hum Ghulam Hain

کیا ہم غلام ہیں

اگر ہم کسی سے بھی پوچھیں کہ کیا ہم غلام ہیں۔ تو جواب نفی میں ہوگا۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہم نے آزادی کئی دہائیاں پہلے انگریز سر کار سے چھین لی تھی۔ لیکن پھر ایسا کیا ہے کہ ہم اپنے ملک کے معاملات، دفتری معاملات، عدالتی طریقہ کار، عدالتی زبان، قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے اندر، ان کے میسز، ہمارے دفاعی اداروں کے میس کے اندر ابھی تک انگریز دور کے قوانین اور طور طریقے اور پہناوے غلامی دور کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔ جس سے اس بات کومہمیز ملتی ہے کہ ہم ایک آزاد قوم نہیں ہیں۔ ہم نے غلامی کا طوق اپنے گلے سے پوری طرح اتار کا نہیں پھینکا ہے۔

سابقہ دور میں پولیس وردی کا رنگ تبدیل کیا گیا جو کہ ایک بہت ہی احسن عمل تھا۔ کالی وردی لوگوں کے ذہن میں اچھا تاثر قائم نہیں کر پا رہی تھی۔ گو کے پولیس کا رویہ اور پولیس عملی طور پر پوری طرح تبدیل نہیں ہوئی پر لوگوں کے ذہن سے کافی حد تک کالی وردی کا منفی تاثر دھل گیا۔

غلامی کا ایک تاثر تب بھی گہرا ہو جاتا ہے جب ہمارا منتخب نمائندہ حلف انگریزی زبان میں میں دے رہا ہوتا ہے۔ کیا ہماری مادری زبان اتنی کمزور یا گئی گزری ہے کہ اپنی قومی زبان میں حلف نہیں اٹھا سکتے؟

مزید دکھ بڑھ جاتا جب وہ اپنی قوم سے تقریر بھی انگریزی زبان میں کرتا ہے۔ اعتراض کرنے والے یہ نقطہ اٹھا سکتے کہ یہ ایک بین الااقوامی زبان ہے دوسرے ممالک کے سفیروں کو اپنا نقطہ نظر پہچانا بھی مقصود ہوتا۔ تو دست بدستہ عرض ہے کہ ہر زبان کی ٹرانسلیشن آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ قوم پر رحم کھایا کریں انگریزی زبان ایک رابطے کا زریعہ ضرور ہے ذہانت کا پیمانہ نہیں انگریزی بول کر خود کو نمایاں کرنے کی سوچ ایک عامیانہ سوچ ہے۔ اس سے بچنا چاہئے اپنے لوگوں سے اپنی زبان میں بات کریں تو وہ اثر رکھتی ہے۔

قانون اور انصاف کے ادارے کے اندر بھی سفید چمڑی کی باقیات نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ محترم جج صاحبان کا ڈریس کوڈ ہے۔ یا ان کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے انسان اور ان کے سروں پر ایک مخصوص ٹوپی بھی انگریزوں کی عطا کردہ مخصوص سوچ کی غمازی کر رہی ہوتی ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس کا یہ فیصلہ بہت مستحسن ہے کہ عدالتی کاروائی براہ راست دیکھائی جائے پر جب عام انسان وہ کاروائی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا ہوتا کیونکہ وہ سب انگریزی میں ہو رہی ہوتی ہے۔ لگ رہا ہوتا کہ ابھی ہم آزاد نہیں ہوئے۔ موجودہ چیف جسٹس عزت ماب نے کچھ کیسز میں روایتی طرز کلام اور حسب نسب پر اپنے ریمارکس دئیے ہیں۔ اور وہ ایک اسلامی فکر رکھتے ہیں توقع رکھنی چاہئے وہ اپنے اس منصب کے دوران انگریز سرکار کے ڈریس کوڈ، اٹھارویں صدی کے قوانین اور عدالتی زبان پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ اردو زبان اور ہمارے ثقافتی ڈریس کوڈ کو نافذ کریں گے۔ جو پیچھے کھڑے لوگ اچکن اور ٹوپی پہنے نظر آتے جن کو انگریز نے پہنایا تھا تا کہ مسلمانوں کی تضحیک کی جا سکے اس لباس اور سوچ سے چھٹکارا دلائیں گے-

ہمارے بہت ہی معتبر دفاعی اداروں کے کھانے کی جگہوں پر ابھی تک انگریز سرکار کے قوانین پر عمل کیا جا رہا ہے۔ ویٹر کے لباس بھی انگریز سرکار کے دور کے ہیں ان کو بھی تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے بھی غلامی دور کی یاد تازہ ہو جاتی اور صاحب بہادر والے جذبات امڈ آتے ہیں۔

اسی طرح ہماری ساری اسمبلیوں کے اندر، چئیرمین سینٹ وغیرہ کے اجلاس میں بھی اچکن اور ٹوپی نظر آتی ہے جو کہ ہاتھ باندھے مہذب انداز میں کھڑے نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی غلامی اور اپنی ہتک کا احساس نمایاں ہو جاتا ہے۔

اسی طرح پانچ ستارہ ہوٹلز میں دروازے پر کھڑے دربان گاڑی کا دروازہ کھولتے انسان پگڑی پہنے نظر آتے تب بھی محسوس ہوتا کہ ہم ابھی تک آزاد نہیں ہے۔ پگڑی ہماری عزت اور شان کی پہچان ہے۔ انگریزوں نے ہماری عزت نفس مجروح کرنے کے لئے ایسے لباس جان بوجھ کر متعارف کروائے لیکن ہم ابھی تک ان کو سینوں سے لگائے پھر رہے ہیں۔ ایسے غلامی دور کی جتنی بھی نشانیاں ہیں فی الفور ختم کرنی چاہئے۔

کسی قوم کی شناخت تبدیل کرنی ہو تو سب سے پہلا وار اس قوم کی زبان تبدیل کرکے کیا جاتا ہے۔ ہمیں خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ ہمیں تمام اداروں میں اپنی قومی زبان اردو کی ترویج کرنی چاہئے۔ انگریزی زبان انگریزی کی باقیات سے احتراز کرنا چاہئے۔ کم از کم اس حد تک تو ہم خود کو آزاد تصور کر سکیں۔ اور یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوں کہ کیا ہم غلام ہیں؟

Check Also

Kya Ye Khula Tazad Nahi?

By Javed Chaudhry