Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Hoshruba Inkishaf

Hoshruba Inkishaf

ہو شربا انکشاف

آج ایک پوسٹ سوشل میڈیا کے توسط سے پڑھنے کو ملی۔ قطع نظر اس کے اعدادو شمار کے کتنی حقیقت کتنا افسانہ لیکن اگر منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد انسان کو سوچنے پر ضرور مجبور کر دیتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہے۔ اندرون ملک کیا بیرونی دنیا میں بھی حکومتی سطح پر ہمارا امیج کیا بن رہا ہے۔

کیا ائیر پورٹ، اسٹیشن، بس سٹاپ، ہسپتال، بازار، مساجد، دربار، ٹریفک سگنلز وغیرہ کہیں بھی چلے جائیں ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ جان چھڑانی مشکل ہو جاتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہمارا اسلامی بردر ملک نے بھی اس مسئلے کواجاگر کیا بھیک مافیا کتنی اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا آپ بھی اس رپورٹ کو دیکھیں اور سر دھنیئں۔

تقریبا 24کروڑآبادی والے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری موجود ہیں۔ جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور باقی 6 فیصد سفید پوش مجبور افرادشامل ہیں۔ 50 فیصد کراچی میں، 16 فیصد لاہور میں، 7 فیصد اسلام آباداور دوسرے شہروں میں یہ طبقہ پایا جاتا ہے۔

کراچی میں روزانہ اوسطا بھیک دو ہزار فی کس لاہور میں 1400 فی کس، اسلام آباد 950 فی کس ہے۔ اگر اوسط نکالی جائے فی بھکاری تقریبا 850 روپے فی کس بنتی۔ اگر اس کو اکٹھا کرکے دیکھاجائے تو تقریبا 32 ارب روزانہ بھیک اکٹھی ہوتی ہے۔ اگر پورے ایک سال کا حساب لگائیں تو117 کھرب بنتے ہیں۔ ڈالر میں اگر اوسط نکالی جائےتو 42 ارب ڈالر بنتے ہیں۔

اس خیرات کے نتیجہ میں ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ملکی ترقی کے لئے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد ی قوت کسی کام نہیں آتی۔ لنگر خانے، اور دوسری تنظیموں کا نیٹ ورکس، بےنظیر انکم سپورٹ وغیرہ بھکاریوں میں اضافہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں۔ ان کی نیت پر شک نہیں پر ترجیحات تبدیل کرنے کی ضرورت۔

کیا ہی اچھا ہو کہ بنگلہ دیش ماڈل کی طرز پر لوگوں کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے سرمایہ کاری کی جائے، ہمیں اس پالیسی پر چلنا چاہئے کہ مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے کا کانٹا دیں۔ سنت نبوی ﷺ بھی یہی ہے کہ پیالہ بیچ کر کلہاڑا خرید کر دیا گیا۔ ایک مثال قائم کی گئی۔ اس میں سب مسلمانوں کے لئے ایک سبق پوشیدہ ہے۔

حکومتی سطح پر اور انفرادی سطح پر ہمیں اس بھیک مافیا کے خلاف سینہ سپر ہو جانا چاہئے۔ ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ یہ پورا ایک نیٹ ورک ہوتا ہے۔ جو کہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہم پوری دنیا میں بھکاری قوم کی شکل میں نمایاں ہو رہے جو کہ ہم سب کے لئےلمحہ فلریہ ہونا چاہئے۔ ہم اپنی نئی نسل کے لئے کس طرح کا معاشرہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

خیرات، صدقات دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے لئے بس تھوڑی سی ترجیحات تبدیل کرنےکی ضرورت ہے کہ بھکاری کی بجائے ہم ہنر مند معاشرہ کھڑا کریں۔ اسی میں بقا ہے۔ ورنہ بھکاریوں کی کوئی قدر نہیں کرتا۔ فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔

Check Also

Hook

By Mubashir Ali Zaidi