Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Ijaz Ahmad/
  4. Basant

Basant

بسنت

صحت مند معاشرہ پروان ہی تب چڑھ سکتا ہے۔ جب ہر شہری کو زندگی گزارنے کے بنیادی حقوق فراہم کئے جائیں۔ جس معاشرہ میں گراؤنڈ آباد ہوں ہسپتال خالی رہتے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے صحتمند دماغ صحت مند جسم میں ہی ہوتا ہے۔ ہم نے اپنی نوجوان نسل سے جو سب سے بڑا ظلم کیا کہ ان سے کھیل کے میدان چھین لئے۔ موبائل، کمپیوٹر نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ مستزاد یہ کہ ہم نے بیرونی قوت کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے بسنت کا تہوار شجرہ ممنوعہ بنا لیا۔

ٹھنڈے پیٹوں اگر غور کیا جائے تو عمل کے دو نتائج ہوتے ہیں۔ یہ ہم پر ہوتا ہے کہ ہمارے لئے بہتر پوزیشن کون سی ہے۔

مرد مومن مرد حق کے دور میں آدھا تیتر آدھا بٹیر والی پالیسی اور ایک مخصوص مقصد کے تحت مخصوص ذہن سازی نے سارے معاشرے کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس وقت کا بویا ہوا بیج اب تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ شاخیں تو کاٹ کاٹ کے تھک چکے ہیں پر جو آکاس بیل بن چکی ہے وہ معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ عدم تحفظ۔ عدم استحکام، عدم برداشت، فتویٰ سازی، دلیل کی کمی، بندوق کے زور پر اپنی بات کو صیح ثابت کرنا، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ بن چکا ہے۔

بیورو کریسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اسی میں عافیت سمجھتے کہ جس وجہ سے مسائل جنم لے رہے سرے سے اس کو ختم ہی کر دیا جائے۔ جیسے محرم میں ڈبل سواری پر پابندی، بسنت پر پابندی وغیرہ۔

سوچنے والی بات کیا اس سے دہشت گردی کو ختم کیا جا سکا؟

بسنت پر پابندی سے کیا اموات کو روکا جا سکا ہے؟

میرے خیال میں بسنت پر مکمل پابندی کی بجائے ان وجوہات کے تدارک کے لئے کام ہونا چاہئے تھا جس سے اموات ہو رہی ہیں۔ مثلاََ موٹر سائیکل مینوفیکچر کو پابند کیا جاتا اور قانون پاس کیا جاتا ڈیزائین میں تھوڑی سی تبدیلی درکار تھی۔ موٹر سائیکل کے فرنٹ پر ایک حفاظتی راڈ کا اضافہ کر دیا جائے تو جان لیوا حادثات پر روک لگائی جا سکتی ہے۔ دھاتی تار بنانے، بیچنے اور اڑانے والوں پر قانون کا شکنجہ سخت کر دیا جاتا۔ پر ہم نے یہ آسان سمجھا کہ مکمل ہی پابندی لگا دی جائے۔

دیکھا جائے تو ہماری نوجوان نسل کے پاس اس گھٹن کے ماحول میں صحت مند سرگرمی کے زیادہ مواقع میسر نہیں یہی وجہ کہ معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو رہا ہے۔ بسنت پر پابندی سے بہتر ہوتا ہم ہر شہر کے باہر کوئی ایسی جگہ تجویز کر دیتے جہاں پتنگ بازی کے شوقین اپنا شوق پورا کر لیتے۔ چھتوں پر پتنگ بازی ممنوع قرار دی جا سکتی تھی۔ پابندی سے ملک کی اکانومی پر ضرب لگی۔ یہ تہوار ہمارے دشمن ملک کو بھی کھٹکتا تھا کیونکہ اس تہوار کی وجہ سے سیاحت فروغ پا رہی تھی۔ اس انڈسٹری سے بیروزگاری کم ہو رہی تھی۔

دوسرے شہروں سے رشتہ دار ایک دوسرے کو دعوت پر اکٹھا کرتے تھے۔ کھانا پینا ہلا گلا ہوتا تھا، فرسٹریشن کم ہوتی تھی۔ مختلف پکوان تیار کئے جاتے تھے۔ دیکھا جائے تو بسنت کی تیاری پورا سال ہوتی رہتی تھی۔ لیکن اس پر روک لگا کر ہم نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ غلطی کرنے کے باوجود ہم اس غلطی کو سدھارنے کی طرف نہیں جا رہے بلکہ مزید اس خلیج کو گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور درپردہ ان لوگوں کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں جو اس ملک کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ جو نہیں چاہتا کہ یہ ملک دوسری اقوام میں ایک جدید ملک نظر آئے جو یہ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں سیاحت فروغ پائے۔

ہم نے ایک کھیل کو مذہبی رنگ میں رنگ دیا اور اس کو شجرہ ممنوع بنا دیا ہے۔

ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ بسنت کی پابندی کے قوانین پر ازسرِ نو غور کیا جائے پتنگ کی پابندی کی آڑ میں چادر اور چار دیواری کا تحفظ کیا جائے جو کہ ایک بنیادی حق ہے۔ چھوٹے بچوں کو اس قانون کی آڑ میں ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہم بچوں کے اذہان پر کس طرح کی چھاپ لگا رہے ہیں۔ کیسے ان کی آزادی کو سلب کر رہے ہیں۔ ایسے قوانین جو کسی شہری کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ان کو ختم ہونا چاہئے۔ ایسےقوانین جرائم کے خاتمے کا سبب نہیں بنتے الٹا کرپشن رشوت کا دروازہ کھولتے ہیں۔ شاید انتظامیہ کے مفاد میں یہ سب ہوتا ہے۔ اسی لئے سب سے زیادہ مخالفت اسی کی طرف سے نظر آتی ہے۔

معاشرے کی گھٹن کم کرنے کا ایک طریقہ کھیل کے میدان زیادہ کر دیں۔ نوجوان نسل کو کھیلوں کی طرف راغب کریں۔ تا کہ ہم ایک صحت مند معاشرے کی طرف قدم بڑھا سکیں۔ حادثے تو آئے دن سڑکوں پر بھی ہوتے ہیں تو کیا ٹریفک یا سڑک ہی بند کر دی جائے؟ کیا یہی آسان حل ہے؟ ہمیں میں نہ مانو کی پالیسی چھوڑ کر بہتر آپشن کی طرف جانا ہوگا بسنت کی پابندی کی بجائے کچھ مزید قوانین بنا کر مشروط پتنگ بازی کی اجازت دے دینی چاہئے مذہبی شدت پسندی میں بھی کمی واقع ہوگی۔

Check Also

Aik Ghar, Aik An Dekhe Khwab Ki Takmeel

By Imtiaz Ahmad