Sub Ko Mil Kar Taraqi Ke Khwab Ko Tabeer Dena Hogi
سب کومل کر ترقی کے خواب کو تعبیر دینا ہوگی
کسی بھی ریاست کی ترقی و بقا انصاف کی فراہمی کے یقینی ہونے سے مشروط ہوتی ہے۔ جہاں کوئی سائل استدعا ہی اپنی زبان میں پیش نہ کر سکتا ہو وہاں اس کی تکلیف کو کوئی کیا سمجھے گا۔ جہاں انصاف کی گزارش ہی لاکھوں کی فیس کی مرہون منت ہو تواندازہ لگائیے کہ وہاں کا انصاف کتنا مہنگا ہوگا۔ اور جس ملک کا جج بیٹھنے کے لئے خود اپنی کرسی کو آگے پیچھے نہ کر سکتا ہو اس سے قوم کی خدمت کی کیا امیدیں لگائی جاسکتی ہیں۔
جب تک انکے شاہانہ ماحول اور تکبر کو ختم نہ کیا جائے انکے اندر دوسروں کو سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ کیا یہ رعب اور دب دبا اور سائل پر خوف کی دھاک قانون کی ضرورت ہے، سز او جزا کا حصہ ہے یا عدل کی مجبوری۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جج کی خصوصیات میں سے پہلی یہ ہونی چاہیے کہ وہ اس عہدے کی خواہش نہ رکھتا ہو۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ اگر جج دونوں فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ نرم رویہ بھی رکھے گا تو یہ ناانصافی ہوگی۔
انصاف کے بعد تعلیم اور صحت ہماری بنیادی ضروریات ہیں۔ ہماری تعلیم و تربیت کیسی ہورہی ہے اسکا اندازہ ہماری روز مرہ کی زندگی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارا دین کہتا ہے کہ "صفائی نصف ایمان ہے" اور ہماری سوچ یہ ہے کہ گھر میں صفائی کام والی ماسی کی ذمہ داری ہے، باہر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اور دفتر میں ملازم کی ذمہ داری ہے۔ پورا ملک گند ڈالنے پر اس نیت سے لگا ہو کہ یہ کام خاکروب کا ہے تو پھر یہ ملک ترقی کیسے کرے گا۔
چاہیے تو یہ کہ گھر سے لے کر ہمارے تعلیمی اداروں تک ہمیں صفائی کی تعلیم دی جائے کہ ہم سب نے مل کر اس ملک کو صاف رکھنا ہے۔ جب تک ہماری تعلیم ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں کر پارہی تو باقی اندازہ لگالیں۔ ہمارے گھروں کے پالتو جانور بھی اپنے بیٹھنے کی جگہ کو دم سے صاف کرکے یہ سبق دے رہے ہوتے ہیں کہ اپنے اٹھنے بیٹھنے کی جگہ کی صفائی اچھا کام ہے مگر ہم اس کا اثر ہی نہیں لیتے۔ اگر ہمارے سکولوں کی ٹیچزز چھٹی کے وقت بچوں کے ساتھ مل کر گھر آنے سے پہلے صفائی کر لیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ اگر ہمارے دفتروں میں کام کرنے والے اپنے اپنے دفتر کو چھٹی کرنے سے پہلے صاف اور صحیح ترتیب دے لیں تو اس میں کیا حرج ہے۔ چائینہ میں میں نے دیکھا ہے ٹیچرز کو جھاڑو پکڑ کر بچوں کے ساتھ سکولوں کی صفائی کرتے ہوئے۔ ہفتہ صفائی منانے کا تصور چائینہ کا ہی ہے۔
ہم ابھی تک اپنے آقاؤں کے بنائے ہوئے ضابطوں کے سہارے چل رہے ہیں جن کا ان کے اپنےملکوں میں کوئی تصور ہی نہیں۔ انگریزوں نے ہم پر حکمرانی کے لئے جو ضابطے بنائے تھے ہم نے وہ اپنی عوام پر حکمرانی کے لئے سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
آفیسر لفظ کو اتنا رعب دار بنا دیا گیا ہے جیسے یہ کسی اور جہاں کی مخلوق ہوں۔ اور اس ماحول نے آفیسرز کی گردنوں میں ایسے سریے ڈال دیئے ہیں کہ وہ کسی کی داد رسی تو کیا اس کو ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان کا ماحول ان کے تکبرکے پارے کو نیچے آنے ہی نہیں دیتا۔ حالانکہ ایک سادہ سا لفظ ہے جس کے معنی ہیں"دفتری"۔ اور یہاں آفیسر کا مطلب ہے کہ اس کے آگے پیچھے خدمتگار ہونے چاہیں جو اس کو پروٹوکول مہیا کریں اور عوام پر اس کا رعب ہو۔ جب کوئی شہری اپنی حق تلفی کے لئے کسی دفتر میں جا کر اپنی روداد ہی نہیں سنا سکتا۔ دفتر کے باہر ملازم کا مقصد ہی یہ ہے کہ کوئی اندر نہ جا پائے تو پھر ہماری اخلاقیات اور تعلیم وتربیت کا تو اندازہ ہورہا ہے کہ ہم خدمت اور مسائل کے حل میں کتنے مخلص ہیں۔
دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ آفیسر فارغ بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کا سٹاف مسائل حل کرنے کے بجائے الجھنیں پیدا کر رہا ہے۔ ہر کسی کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے تاکہ اس کو ذمہ داری کا حساس ہو۔ یہ کلرکوں کا تصور اب ختم ہوجانا چاہیے۔
ہمارے دفاتر میں کمپیوٹر بھی ہیں اور انٹر نیٹ بھی مگر ان سے وہ کام نہیں لیا جارہا جو ایک معیار ہونا چاہیے۔ اگر ہم دفتروں میں سسٹم کے اندر ہی کسی بھی درخواست کے طریقہ کار کو اس کی ریکوائرمنٹس سے مشروط کردیں تو درخواست گار کو معلوم ہو کہ جب تک اس کی ریکوائرمنٹس پوری نہیں ہونگی اس کی درخواست دفتر میں جمع ہی نہیں ہوسکتی تو وہ خود ہی سب ضروری چیزیں پوری کر دے گا۔ کیا ضرورت ہے کہ یہ سب کچھ کلرکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کی کہ وہ اپنے مذاج کے اثرات لوگوں کی قسمت پر ڈالتے رہیں۔ ہر کوئی اپنے گھر سے ہی آن لائن اپنی ہر درخواست کو فائل کرے۔
یہ کوئی اتنی بڑی راکٹ سائینس تو ہے نہیں کہ جس کو کلرک سائنسدان ہی چلا سکتے ہیں۔ یہ کلرکوں کا مقصد خدمت نہیں بلکہ شاہانہ ماحول اور نااہلیوں سے ترقی کو سبوتاژ کئے رکھنے کا بہانہ ہے۔ ان کو اور کچھ نہیں تو اتنے سالوں سے بند سٹیل مل میں بھیج دیں وہاں جا کر اُس میں کام کریں جو ہم پر ان کی طرح بوجھ بنی ہوئی ہے۔ سب ملکر سٹیل مل کو منافع بخش بنائیں اور جن آفیسرز کا بھی ان کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا ان کو بھی وہاں سپروائزر لگا دیں۔ کوئی ترقی والے ماڈل بنیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔
بلجیم کا ترقی کی فہرست میں پچیسواں اور یورپی ممالک میں سولھواں نمبر ہے۔ ایک دفعہ میں نے کانفرنس کی غرض سے جانے کے لئے ویزا کے حصول کی درخواست جمع کروائی۔ کانفرنس میں وقت تھوڑا رہتا تھا۔ ایک ہفتے کے بعد میں نے ایمبسڈر کو ای میل لکھی جس میں جلدی پراسیس کی گزارش بھی کی۔ دوسرے دن جواب موصول ہوا کہ میری درخواست منظوری کے لئے برسلز بھیجی جاچکی ہے۔ اور مجھے ساتھ ہی آن لائن اپنی درخواست کا سٹیٹس دیکھنے کے لئے لاگ ان معلومات بھی دے دی گئیں۔ میں نے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ درخواست پر عمل جاری ہے۔ دو دن بعد دوبارہ چیک کیا تو پتا چلا کہ میری درخواست منظوری کے بعد اسلام آباد بھیج دی گئی ہے۔ اگلے ہی دن مجھے ایمبیسی سے کال آگئی کے آپ پاسپورٹ وصول کرسکتے ہیں۔
اسی طرح جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس سے زیادہ کمزور اور مجبور کون ہوگا؟ چاہیے تو یہ کہ مریض جیسے بھی ہو ایک دفعہ ہسپتال پہنچ جائے تو اس کی تمام فکریں ختم ہوجائیں اور ڈاکٹر اور اس کا عملہ جو صحت مند اور تندرست ہے وہ باری باری آکر مریض کو چیک کریں اور اس کو سہولیات پہنچائیں۔ مگر ہمارے ہسپتالوں کایہ حال ہے کہ وہاں ڈاکٹر گویا تھانیدار بن کر بیٹھے ہوتے ہیں اور مریض کو پہلے تو پرچی کی قطار میں کئی گھنٹے کھڑا ہونا پڑے گا اور پھر ڈاکٹر کے کمرے کی لائن میں اور پھر لیبارٹری کے باہر پہلے رجسٹریشن اور پھر خون کا سمپل دینے کے لئے اور جب تک اس کے ٹیسٹ کی رپورٹ آئے گی ڈاکٹر چھٹی کر چکا ہوگا یا چائے پینے کے لئے جا چکا ہوگا۔ جب سب ہی الٹا چل رہا ہوتو پھر ملک ترقی کیسے کرے گا۔
مجھے ایک دفعہ کینیڈا میں ہسپتال جانے کااتفاق ہوا، یقیں جانیں مجھے ایک چھوٹے سے کیبن میں بٹھا دیا گیا اور مجھے پتا اس وقت چلا کہ مجھے چیک کیا جاچکا ہے جب ابتدائی رپورٹ سے آگاہ کیا گیا کہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ جسے میں کوئی ڈاکٹر کا سٹاف سمجھتا رہا دراصل وہ ڈاکٹر ہی تھا جس نے وہاں آکر مجھے چیک کیا تھا۔ لیبارٹری والے وہیں سے خون کا سمپل لے گئے اور جب ان کو یقین ہوگیا کہ کوئی خطرے والی بات نہیں تو پھر انہوں نے مجھے سی ٹی سکین کے لئے ایک کمرے میں جانےکی زحمت دی۔
کینیڈا کو ہیلتھ رپورٹ میں صحت کے انتظامات کو"بی" گریڈ ملتا ہے اور ان کا سولہ ہم مرتبہ ممالک میں آٹھواں نمبر ہے۔ اسی طرح جیسا کہ میں بتایا ہے بلجئم بھی ترقی کے لحاظ سے یورپ میں سولھویں نمبر پر ہے مگر اس کے باوجود وہاں کے عوام کا شعور اور اخلاق اعلیٰ ہیں اس لئے وہاں کا معیار زندگی آج بہتر ہے۔ چند سال پہلے کینیڈا میں ڈاکٹرز کی تنخواہیں بڑھائی گئیں تو انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے بجائے ان کے ساتھ کام کرنے والے پیرامیڈیکل کی تنخواہیں بڑھائی جائیں وہ زیادہ ضرورت مند ہیں۔ یہ ہوتے ہیں اعلیٰ اخلاقیات۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جن کے اندر شعور اور اعلیٰ اخلاقیات ہوتے ہیں۔
ہمیں اپنے اندر اس سوچ اور جذبے کو پیدا کرنا ہوگا جس کا تعلق اپنی ذات سے بڑھ کر ملک و قوم کے بہتری سے ہو۔ کوئی جج ہو، جرنیل ہو، بیوروکرٹ ہو یا سیاستدان سب کے پاس اسی ریاست کے مہیا کردہ اختیارات اور وسائل ہیں جواس قوم کی امانت ہیں جن کا مقصد ریاست اور عوام کی فلاح و بہبود ہے نہ کہ ذاتی مفادات کے لئے انکا استعمال۔ ہمیں صحیح معنوں میں عوامی خدمت کا ماحول پیدا کرکے عوام کے اعتماد کو بحال کرتے ہوئےان کے اندر ریاست، اس کی املاک اور اداروں کے ساتھ یکجہتی کے جذبے کو پیدا کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم سب مل کر اس ملک کی ترقی کے خواب کو تعبیر دینے کے قابل بن سکیں۔