Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Bilal Hassan Bhatti/
  4. Neeli Bar (1)

Neeli Bar (1)

نیلی بار (1)

طاہرہ اقبال پاکستانی ناول نگار، افسانہ نگار، سفرنامہ نگار، محقق اور نقاد ہیں۔ وہ گورنمنٹ ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں بطور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ اب تک وہ چار افسانوی مجموعے اور مٹی کی سانجھ کے نام سے ناولٹس کی ایک کتاب لکھ چکی ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے "زمین رنگ" کو بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ مل چکا ہے۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ اور نیلی بار ناول انڈیا میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کا پہلا ناول نیلی بار حال ہی میں لکھے گئے اردو کے چند بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ نیلی بار کراچی ادبی میلے اور ایچ بی ایل ادبی انعام کے لیے شارٹ لسٹ بھی ہوا۔

بار نہری نظام سے پہلے پنجاب میں موجود جنگلی علاقوں کو کہتے ہیں۔ مغربی پنجاب میں دریائے ستلج اور دریائے راوی کے درمیان ضلع ساہیوال، ضلع اوکاڑہ اور پاکپتن کے درمیانی حصے کو ملا کر بننے والے علاقے کو نیلی بار کہتے ہیں۔ رائے احمد خان جیسے ہیرو کا تعلق بھی نیلی بار سے ہے۔ "نیلی بار" ناول دس ابواب پر مشتمل ہے۔ جس میں ہر باب پچاس کی دہائی سے لے کر اکیسویں صدی کی پہلی دہائی پر پھیلی سیاسی، سماجی، ثقافتی، تہزیبی اور شعوری ارتقا کی ایک طویل داستان ہے۔ طاقتور اور غریب یا مقامیوں پر قبضہ گیروں کی نفسیات کا بہت گہرائی سے تجزیہ کرنے کی جو بنیاد اردو ناول میں اس صدی کے آغاز میں غلام باغ اور خس و خاشاک زمانے نے رکھی نیلی بار اسی کا ایک تسلسل محسوس ہوتا ہے۔

اردو ادب کے بڑے ادیبوں نے اپنے کینوس کو وسیع کرنے کے چکر میں کہانی اور اس کے کرداروں پر کس طرح کمپرومائز کیا یہ ناول اس پر ایک مضبوط حوالہ کی حثیت سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ عورت ذات کے دکھ، پریشانیوں اور جسمانی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی بار کے زمانے میں دودھ دینے والی گائے سے کم حثیت ہونے یا ایک جنسی مفعول ہونے کی حثیت کو بہت نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ غریب اور امیر طبقے کی زندگیوں کی رنگینیوں اور بے رنگے پن کو قاری کے سامنے لانے اور خاص کر امیر طبقے کی عورتوں کی جنسی نا آسودگی، کھوکھلا پن اور غریب طبقے کی عورتوں کو جنسی آلے کے طور پر استعمال کرنے کی جو تصویریں ناول نگار نے پیش کی ہیں وہ پچھلی صدی کے پنجاب میں عورتوں کی حثیت کی عمدہ مثال ہے۔

ناول کا پہلا باب مقامیوں اور باہر سے آنے والوں کے بعد ہونے والی تبدیلیوں پر لکھا گیا، ایک کلاسک بلکہ ایک شہکار کام ہے۔ بطور اردو ادب کے قاری پنجاب اور خصوصاً بار کی رہتل اور زبان پر اس سے مضبوط اور مٹی میں گندھا ہوا ادبی فن پارہ اب تک میری نظر سے نہیں گزرا۔ اس سو صفحے میں ناول نگار نے پنجاب میں نہری نظام کے آغاز کے ساتھ پوٹھوہار کے پہاڑوں سے شلواروں اور اچکنوں کو زیب تن کیے اتر کر آنے والے یا تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجروں اور مقامیوں کے درمیان موجود ثقافتی، تہزیبی، سماجی بلکہ زندگی میں ہر سطح پر موجود فرق کو بہت خوبصورتی سے قاری کے سامنے رکھا ہے۔

مقامیوں پر باہر سے آنے والے طاقتور طبقے کس طرح اپنی طرز زندگی مسلط کرتے ہیں یا کس طرح مقامیوں کو باہر سے آنے والے لوگ اجڈ، گنوار، تہزیب و شعور سے عاری ڈھور، ڈنگر سمجھتے ہیں۔ پہلے باب میں یہ سب یوں بیان کیا گیا ہے کہ ناول پڑھتے ہوئے بطور قاری مقامیوں کی تہزیب پر حملہ آوروں یا باہر سے آنے والوں کے رویے اور تہزیبی اثرات جیسے بین القوامی موضوع کی کئی کہانیاں ساتھ ساتھ ذہن میں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بار میں جلندر، امرتسر اور گرداس پور سے آنے والے مہاجرین اور سیالکوٹ، چکوال اور پنڈی سے آنے والے جٹ، ملک، گکھڑ، آرائیں، زیلدار اور چوہدری کہلانے لگے، جب کے بار کے مقامی اپنی مذہبی شناخت کی بنا پر مسلی، چمار اور چوڑے کہلائے گئے۔

باقی ناول کے نوں باب پاکستان کی سیاسی تاریخ یا شہری و دیہی زندگی کے ارتقا کو بیان کرتے ہیں۔ کینوس کی اس وسعت کے ساتھ کہانی اور کرداروں پر جو گرفت پہلے حصے میں ایک سنجیدہ قاری کو بھی حیران کر دیتی ہے، وہ آخر تک پہنچتے اس قدر ڈھیلی محسوس ہوتی ہے کہ بس کہانی ختم کرنے کی ہی دلچسپی باقی بچتی ہے۔ شاید اگر یہی کہانی محدود کینوس کے ساتھ لکھی جاتی تو یہ اردو کی چند مضبوط اور طاقتور کہانیوں کے طور پر ابھر کر سامنے آتی۔ کینوس کی وسعت پر آگ کا دریا اردو ادب میں سب سے زیادہ ریٹ تو کیا جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی مستنصر حسین تارڈ کا ناول خس و خاشاک زمانے اردو میں کینوس کی وسعت کے باوجودا سلوب کی انفرادیت، کہانی اور لینڈسکیپ کو یوں پینٹ کرنے کا سب سے مضبوط حوالہ ہے کہ قاری خود کو آخر تک کرداروں کے ساتھ ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔

ناول کے دو مرکزی کردار زارا اور پاکیزہ نامی دو خواتین ہیں، جو کہ ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہوئے دو الگ الگ زندگیاں گزارتی ہیں۔ ایوب کی زمینی اصلاحات، بھٹو کے سوشلزم، ضیا کے جہاد اور اس کے بعد اس جہاد سے ہمارے معاشرے میں پھیلی دہشتگردی کے ناسور کا ذکر کرتے ہوئے عبدالرحمن جیسے وڈیرے، علی جواد جسیے متوسط طبقے کے موقع پرست انقلابی اور جہادی یا خانقاہی نظام کے ایک مہرے پیر اسرار احمد جیسے مردانہ کردار بھی ناول کا حصہ ہیں۔ لیکن ان مردانہ کرداروں سے صرف اور صرف شر پھیلتا دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے اس معاشرے میں مرد کا بس ایک بھیانک نظر آنے والے ہی روپ ہے۔

علی جواد کے کردار سے شہری زندگی میں سوشلزم اور جہاد پر تنقید یا زارا کی جنسی ہوس بجھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں لیا گیا۔ جب بھی کہانی میں علی جواد آتا ہے تو اس کا واحد مقصد زارا کی جنسی ہوس مٹانا ہے۔ علی جواد کے کردار کو پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ فرقہ منٹویت کی ایک محقق ہونے کے ناطے ناول نگار جنسیت کو انسانی زندگی کا اہم حصہ تو سمجھ کر اپنی فکشن میں شامل کر رہی ہیں۔ لیکن علی جواد کے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتی۔ علی جواد کو یک رخا یا جامد کردار بنا دیا جاتا ہے۔ جو اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہو سکتا تھا۔

Check Also

Washington DC Ka Jaiza

By Mojahid Mirza