Siasi Ijtihad Ki Zaroorat Aur Ahmiyat
سیاسی اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت
مولانا وحید الدین کی کتاب فکر اسلامی بہت شاندار کتاب ہے، اس کتاب میں جہاں فکر اسلامی کے بہت سے موضوعات پہ گفتگو ہوئی ہے وہیں اجتہاد کے موضوع اور اہمیت پر انتہائی مفصل اور مدلل بحث کی گئی ہے۔
فرماتے ہیں کہ دور جدید میں مسلمانوں کے لیے جو مسائل پیدا ہوئے، ان میں سب سے پہلا اور سب سے اہم مسئلہ فکر اسلامی کی تشکیل جدید تھا یعنی دور جدید کی واقعی نوعیت کو متعین کرنا اور پھر اسلام کے ساتھ اس کے مثبت یا منفی تعلق کو واضح کرنا۔ اس کام کی اولین اہمیت اس لیے تھی کہ اسکے بغیر دور جدید میں اسلامی عمل یا ملت کے احیا نو کی جد و جہد صیح اور موثر طور پر شروع ہی نہیں کی جا سکتی مگر یہ کام بروقت نہ کیا جا سکا اس کا مہلک نقصان یہ ہوا کہ دور حاضر میں مسلمانوں کو اپنے عمل کا صحیح رخ (line of action) ہی نہیں ملا۔ مختلف سمتوں میں غیر متعلق کوششیں کرکے وہ اپنی حاصل شدہ طاقت کو ضائع کرتے رہے۔
مسلمانوں کو درپیش جملہ مسائل کے لیئے اجتہاد کی اہمیت کو سمجھنا چاہیئے تھا لیکن ہم نے اس اہم موضوع کو اہمیت نہ دے کر اپنے لئیے آگے بڑھنے کے ممکنہ رستے مسدود کر دئیے۔ عمومی طور پر اجتہاد شرعی حوالے سے مستعمل ہے لیکن معنی کے اعتبار سے کسی بھی پچیدہ صورت حال میں سامنے موجود مسئلے کے حل کے لیئے صاحب علم وعمل، اس شعبے کے ماہر، اہل دانش بنیادی اصولوں کو تبدیل کئیے بغیر قدیم اور جدید علم اور تجربے کی روشنی میں فریقین کے لئیے قابل عمل اور مستقل حل تجویز کر سکتے ہیں۔
اجتہاد کا لفظ جہد سے نکلا ہے جس کے معنی کوشش کے ہیں، شریعت کے مسائل میں جب اجتہاد کا لفظ بولا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اپنی پوری کوشش کرکے متعلقہ معاملہ میں شرعی حکم معلوم کرنا اور لوگوں کی راہنمائی کرنا۔
مولانا وحیدالدین اجتہاد کی اہمیت کو واضع کرتے ہوئے صلح حدیبیہ کو مثال بناتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ دس سال جنگ نا کرنے کا معاہدہ تھا جو یکطرفہ شرائط کی بنیاد پر کیا گیا۔ اس وقت قرآن میں یہ آیت اتر چکی تھی کہ ان لوگوں کو لڑائی کی اجازت دے دی گئی جن سے لڑائی کی جارہی ہے، اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا (الج 39) حدیبیہ کے وقت اور حدیبیہ سے پہلے فریق ثانی واضح طور پر ظلم اور جارحیت کا معاملہ کر چکا تھا۔ اس کے باوجود ان کے خلاف جنگ نہیں چھیڑی گئی۔
عمرہ کی ادائگی کے بغیر حدیبیہ سے واپسی سراسر وقار کے خلاف تھی مگر آپ نے اس کو نظر انداز کر دیا۔
کاغذ سے رسول اللہ کا لفظ مٹانا گو یا اپنی اصل حیثیت کو مجروح کرنا تھا مگر اس کے باوجود آپ نے رسول اللہ کا لفظ کاغذ سے مٹا دیا۔ ابوجندل کو زخمی حالت میں دشمنوں کی طرف واپس بھیجنا سخت جذباتی معاملہ تھا مگر اس کو بھی آپ نے برداشت کر لیا۔ حدیبیہ میں صحابہ کے پڑاو پر اہل مکہ نے سنگ باری کی مگر آپ نے اس کا انتقام نہیں لیا۔ اس طرح کے متعدد اشتعال انگیز واقعات پیش آئے مگر آپ نے ان سب سے اوپر اٹھ کر سوچا آپ ﷺ نے کلی مصلحت کو جزوی مصلحت کے اوپر غالب رکھا۔
حدیبیہ کے وقت جو حالات تھے وہ سب کے سب ٹکراؤ کی طرف لے جانے والے تھے اور ظاہری احکام شریعت کے مطابق اس وقت یہ ٹکراو عین جائز بھی تھا مگر آپ ﷺ نے اس قسم کے تمام حالات سے اوپر اٹھ کر سوچا آپ نے وقتی مصلحتوں کو نظر اندانہ کرکے مستقل اور پائیدار مصلحتوں کو اہمیت دیتے ہوئے صلح کے معاہدہ پر دستخط کر دئیے۔ اس کا نتیجہ قرآن اور تاریخ کی شہادت کے مطابق فتح مبین کی صورت میں برآمد ہوا۔ صلح حدیبیہ اجتہاد کی اعلی و عمدہ مثال ہے یہ مثال صرف ایک مذہبی معاملہ کا ہی احاطہ نہی کرتی بلکہ جملہ معاشرتی مسائل کا پائیدار حل فراہم کرتی ہے۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کو دیکھا جائے تو اس کے لئیے سیاسی اجتہاد ہی واحد، پائیدار اور قابل قبول حل ہے۔ سیاسی اجتہاد کی ضرورت اس لئیے بھی ہے کیونکہ دنیا میں حالات مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں، عالمی سیاست، معیشت، ٹیکنالوجی اور ثقافتی فرق تیزی سے بدل رہے ہیں، جس کے نتیجے میں روایتی سیاسی طریقے ماضی کے حالات کے مطابق ناکافی یا غیر مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ہمارے علاوہ تمام دنیا نئے علوم و تجربات سے استفادہ کر رہی ہیں، پرانے طریقے کارگر نہیں رہے اس لیے جدید مسائل کا حل روایتی طریقوں سے ممکن نہیں۔
اجتہاد کی بنیاد فکری تجزیے پر ہوتی ہے۔ اس میں موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے تاکہ نئے مسائل کو سمجھا جا سکے اس کے بعد ان مسائل پر غور و فکر کرکے ان کے حل کے لیے نئے اصول وضع کیے جاتے ہیں۔
اجتہاد میں جدید علوم، سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کو شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس سے سیاستدانوں کو نئے زاویے سے مسائل کا جائزہ لینے اور حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سیاسی اجتہاد میں انسانی حقوق، علاقائی سیاست اور اخلاقی اقدار کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اس کے ذریعے فیصلے خالص عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے جاتے ہیں۔ سیاسی اجتہاد کے لئیے ماضی کے تجربات، خصوصاً ملکی یا عالمی سطح پر کیے گئے سیاسی فیصلوں کا جائزہ لے کر اجتہاد میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کون سے فیصلے کامیاب رہے اور کون سے ناکام۔
پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک بے شمار سیاسی حربے آزمائے جا چکے ہیں، صدارتی، پارلیمانی اور ہائبرڈ نظاموں کے تجرے، اپنی مرضی کے عدالتی فیصلے، الیکشنوں میں دھاندلی کے طریقے کسی کام نہیں آئے بلکہ سیاسی ابتری میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ موجودہ دور میں آپ دنیا سے کٹ کر نہی رہ سکتے آپ کو علاقائی اور بین الاقوامی اصولوں اور اقدار کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے ہے، اقوام عالم کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے ورنہ آپ کی شناخت کو خطرے لاحق رہیں گے۔
پاکستان کے موجودہ حالات کی ذمہ دار تمام سیاسی، غیر سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں انھوں نے اقتدار میں آنے کے لیئے مذہب اور معاشرتی اقدار کو اپنے سیاسی فائدے کے لئیے استعمال کیا ہے اور عوام اور اداروں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے، آج ہم پوری دنیا کے سامنے تماشا بنے ہوئے ہیں اور معاشی، اقتصادی اور معاشرتی حوالوں سے پست ترین ہیں ہماری شناخت صرف انتہا پسندی، اشتعال انگیزی، آئین شکنی، جھوٹے پراپے گنڈے، کھوکھلے نعرے لگانے والی قوم کی سی رہ گئی ہے۔
ہم اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کے لیئے تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں، سیاسی، گروہی اور مسلکی دشمنیاں ذاتی دشمنیوں میں بدل چکی ہیں، ادارے اپنی رٹ اور عزت کھو چکے ہیں۔ حکومت، انتظامیہ، عدلیہ اور سول ادارے اپنے اپنے سیاسی آقاوں کے لئے استعمال ہو رہے ہیں عوام صرف ان کی سیاسی اور گروہی جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی بقا سیاسی اجتہاد میں ہے، تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو وقتی اور گروہی مفادات سے ہٹ کر پاکستان کے لئیے سوچنا چاھئیے اور کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاھیئے بلکہ آئین پاکستان کا وفادار رہنا چاھئیے۔ پاکستان کے لئیے اپنے مفادات سے وقتی طور پر دو قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے تو مشکل کام نہی، پاکستان ہے تم ہم ہیں، ہماری ذاتی اور اجتماعی بقا ملک پاکستان کی بقا سے وابستہ ہے۔